"ایک آہ اٹھی اور
قہقہوں میں دفن ہوگئی۔"
از قلم: اقصیٰ بتول حیات
ایک آہ اٹھی اور قہقہوں میں دفن
ہوگئی۔ کئی سال پہلے یہ جملہ میں نے ایک تقریر میں کہا تھا۔ شائد وہ سکول کا زمانہ
تھا۔ سمجھ نہیں آیا کیا آہ بھی قہقہوں میں دفن ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہی لائن پھر سے
دماغ میں گونجتی تھکا سی رہی تھی۔ شائد یہ
کچھ کہنا چاہتی ہے مجھ سے اور تم سب سے بھی۔
یہ آہ مظلوم کی آہ ہے۔ یہ آہ سر زمین
فلسطین کے ہر باشندے کی آہ ہے مگر تمہارا اس سے کیا لینا دینا۔ کیا تم
وہی ہو جو غزہ کی ریلز دیکھ کر بے زاریت محسوس کرتے سکرین آگے کردیتا ہے تو
شائد تمہارے اندر کا مرچکا ضمیر تمہیں یہ پڑھنے کی توفیق بھی نہ دے۔ مجھے تمہارے نہ پڑھنے سے فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا
کام پہچانا ہے۔ لیکن تمہیں فرق ضرور پڑے گا۔
دو سال فقط یہ قصہ دو سال پر مشتمل
نہیں ہے۔ یہ قصہ صدیوں پرانا ہے، یہ قصہ بوسیدہ تاریخ کے لہوآلود صفحات کو مزید
لہو آلود کرتا ہے۔
آہ اٹھتی ہے مظلوم کی۔۔۔۔۔
آہ اٹھتی ہے ارض فلسطین کی
آہ اٹھتی ہے اہل اقصیٰ کی
مگر تمہارے قہقہوں میں دفن ہو جاتی
ہے۔
تمہاری بے حسی کی بھنیت چڑ جاتی ہے۔
کچھ دیر کے لیے کھولتے ہیں تاریخ کے
محض چند اوراق لیکن میں جانتی ہوں اکثریت
کو اہل حق کا قصہ بے زار کرتا ہے۔ ان کی بوسیدہ روحیں حق پڑھنا نہیں چاہتیں۔ بے چین مردہ ضمیر صفحات
کو ٹھپ کر رکھنے لگتے ہیں۔ لیکن ہم تو لکھیں گے۔ ہمارا قلم ان دس فیصد اہل حق کے
لیے جاں فشانی سے رواں رہے گا۔
یہ وہی دھوکے باز یہودی ہیں جنہوں نے
ہر دور میں تمہاری پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ اسرائیل وہ خنجر ہے جو اسلام اور
مسلمانوں کے دل میں گھونپا گیا۔
لیکن اصل تو دکھ بنوقریظہ والے بنتے
ہیں۔ ہماری حکومت سے لےکر تمام اہل عرب صاحب اقتدار بنو قریظہ بن چکے ہیں۔ وہ ساتھ
دینے کا عہد دیا کرتے تھے۔ مگر ان کے عہد
خاک ہوئے۔ انہوں نے اپنی عیش و عشرت کو چن لیا۔ تاریخ کے صفحات میں تمہیں
سچ جھوٹ کے لبادے میں لپٹا فراہم کردیا جائے گا۔ اس لیے اہل قلم نے دکھ سے وہ
اوراق بند کر دیے۔ سچ تو ہر زی روح کے سامنے تھا،ہے اور تا قیامت رہے گا۔ فرعون کی
جیت کسی دور میں ممکن نہیں۔ کیا کبھی
فرعون کو کسی دور میں فتح یاب ہوتے دیکھا ہے۔ ان لوگوں کی فتح عارضی سراب ہے۔ اصل
فتح تو اہل حق کی ہے جس کا ان سے وعدہ ہے۔ لیکن اہل حق کی آزمائش میں کون ان کے
ساتھ ڈٹے رہے۔
تم میں سے پچاس فیصد بے ضمیر مردہ
زہن ہیں۔ جنہیں اہل قدس کے ٹکڑوں سے کوئی
فرق نہیں پڑتا۔ ظلم کو بقا کے بوسیدہ لبادے میں لپٹائے وہ ظلم و ستم کی نئ تاریخ
رقم کیے جا رہے ہیں مگر تم خاموش ہو۔ تیسں فیصد خود کو غیر جانبدار کہنے والے مردہ
روح ہیں۔ اہل قلم ان کو پہلی صف سے بھی غلیظ کہے گی کیونکہ پہلی صف والے مکمل ظالم
کے ساتھ ہیں۔ یہ تماش بین ہیں۔
خاموش تماش بین۔
دس فیصد ظلم کو دیکھ کر ظلم کہتے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے
یہ ان کا بیاں ہے۔ ان کے لیے ان کی زبان کے ذائقے کسی فلسطینی بچے کی خون آلود لاش
سے بڑ کر ہیں۔ ان سے گفتگو کرو گے تو یہ چیخ
کر کہیں گےاہل قلم ہمارا دل سر زمین قدس کے لیے دھڑکتا ہے۔ مگر اہل قلم الفاظ کی
گہرائیوں کو مانپتی ہیں۔ اور ان کے لفظ کھوکھلے ہوتے ہیں۔
باقی بچ جانے والےدس فیصد آہ۔۔۔۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی
میرے غازی ۔۔۔۔ اہل قلم کا قلم ان کے لیے محبت و عقیدت سے
لبریز ہے۔ ان کی
ہمت وجرت کے سامنے خود کو جھکا محسوس
کرتا ہے۔
ذرا سوچنا تم کتنے فیصد میں آتے ہو؟
"کہاں ہیں اہل عرب؟؟؟؟؟؟؟؟؟"
ایک بچے کی پکار ہے۔ سارے سوالیہ
نشانات تمہارے لیے ہیں۔
تم اہل عرب نہ سہی، امت تو ہو۔ پکار
کے جواب سے کیسے بچو گے؟
"میں اوپر جا کر تم سب کی شکایت کروں
گی۔"
اس شکایت کا جواب کیسے دو گے۔
سوال تو ہر ایک شے ہوگا۔ استطاعت کے
مطابق کس نے کیا کیا ہے۔
اہل قلم شعبہ طب سے ہیں۔ بتانا چاہوں گی راہ میں کئی فرعون ہیں۔ یہ فرعون اپنے کالجز کی
کسی کینٹین پر
"اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں"
کا
چارٹ تک چپساں کرنا تو دور اس پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ یہ فرعون اہل
قلم سے کہتے ہیں دل ہمارے فلسطین کے ساتھ
ہیں، دکھ بھی ہوتا ہے مگر ہم تمہیں اجازت نہیں دیتے۔ محض اپنی تعلیم تک رہو۔
مگر ان یہود کا اجاد کیا گیا جب کوئی
بین الاقوامی دن آتا ہے تو یہ ہمیں باہر سڑکوں پر
خود لے آتے ہیں۔ تب اہل قلم ان کی منافت کو ایک کرب سے دیکھتی ہے۔ وہی
منافق بنو قریظہ نعرے لگاتے ہیں، جھوٹ کے پلندے میں لپٹی تقاریر کرتے دل پارہ پارہ
کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں بات کرو تو یہ مستقبل ختم کرنے کی دھمکی دیں گے۔
اہل قلم کا دل کمزور سہی مگر بزدل ہر
گز نہیں ہے۔
جاؤ ہم تمہاری جھوٹی شان سے نہیں
ڈرتے۔ منافقت بھرے طرز عمل ہمارے دل کو لہو رنگ ضرور کرتے ہیں مگر حق پر قائم رہیں
گے۔ ہمارے مجاہد شکست کی دھول سے ایک دن
تمہیں خاک کریں گے۔
تم جانتے ہو وہ سر زمین کیوں
نہیں چھوڑتے۔ موت بھی انہیں قدس کو چھوڑنے
پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کیا تم لوگوں کو پتا ہے کہ فلسطینی اپنی زمین کیوں نہیں
چھوڑتے؟ اتنی تکلیف، مشکلات اور خون میں نہا کر بھی وہ اپنا فلسطین، یہ زمین کا
ٹکڑا کیوں نہیں چھوڑتے؟
نہیں، تمہیں نہیں معلوم وہ اس لیے نہیں چھوڑتے کیونکہ یہ ہمارے
پیغمبروں کی زمین ہے۔ یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں ہمارے بہت سے انبیاء آئے اور مدفون
ہیں۔
یہ ہمارا پہلا قبلہ ہے، وہی جگہ جہاں
سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ معراج کے سفر پر آسمانوں کی طرف تشریف لے گئے تھے۔
یہ فلسطین وہ راستہ ہے جہاں سے ہمارے نبی ﷺ عرش تک، یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور تک
پہنچے اور دیدار فرمایا تھا۔ کیسے چھوڑ دیں یہ سر زمین۔ کیا اس کی حفاظت کا ذمہ
صرف ان کا ہے، تمہارا نہیں؟
وہ آہیں ان منافقوں کے قہقہوں میں
مدفن ہو جاتی ہیں۔ جانتے ہو وہ کس کی آہیں ہیں؟
ہاں۔۔۔۔ تم جانتے ہو مگر تم اس سے
کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ صمود فلوٹیلا کے
بارے میں سن تو رہے ہو مگر سماعت بہری کر لی ہے۔
اے مردہ ضمیر انسان اگرتمہیں انسانیت کے لیے آواز اٹھانے کے لیے کسی دعوت کی
ضرورت ہے تو یہ اہل قلم رب کائنات کی طرف سے تمہیں آواز دیتی ہے۔
کیا تمہیں مظلوم کی آہوں کو نظر انداز
کرتے زرا شرم محسوس نہیں ہوتی۔ کیا تمہاری حمیت وغیرت مر چکی ہے۔ اس خوش فہمی میں
رہنے س گریز کرنا کہ تم سلامت رہو گے۔
"آج وہ کل تمہاری باری ہے۔"
یہودوکافر تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔
یہ میں نہیں کہتی بلکہ رب کائنات نے کئی صدیاں قبل بتا دیا تھا۔
امت ایک امت نہ رہی۔ مسلمان جسد واحد
نہ رہا۔
ہائے افسوس۔۔۔۔۔۔ !
کیا سمجھتے ہو اے حکمراں وقت اہل قلم
حق سے نہ آشنا ہے۔ نہیں تمہاری بے حسی کی
یہ آنکھیں گواہ ہیں۔ عربوں اور مسلمانوں کی اہل غزہ کے لیے سنگ دلی محسوس کرتے روح
زخم آلود، دل شل سا ہے۔
جاؤ رکھ لو اپنی عیش و عشرت کی حیات۔
وہ عارضی چند لمحہ ذائقہ تمہیں ہمارے سرخ لہو سے زیادہ عزیز ہیں تو جاؤ کھا لو۔
لیکن میں تمہاری اپنے رب سے شکایت ضرور کروں گا۔ کیا جواب دے پاؤ گے۔ حکمران نے
اپنے حصے کا جواب دینا ہے اور تم نے اپنے حصے کا۔ باطل کے خلاف حق چن لو۔ فریاد سن لو۔
مگر تم بے حس ہو گئے تم نے میرا خون
بہنے دیا۔ یہ خون روز ندیا کی مانند بہتا ہے۔ کئی خواب، خواہشات، زندگیاں سب کچھ
اپنے ساتھ بہاتے یہ ندیوں کی مانند بہتا خون تم سے فریاد کرتا ہے جاگ جاؤ کہ اب
وقت شہادت ہے آیا۔۔۔۔۔۔۔
تم گواہی دینا روز محشر کہ اہل قلم کھڑی تھی۔🇵🇸
اہل قلم کا دل پارہ ہے۔ مگر ہر دور میں اہل قلم نے حق ادا
کرنا چاہا۔ یہہی کوشش اب بھی جاری ہے۔
"وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا
کہ
تم کھڑے تھے۔"
ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے بھلے تو
جسم سے گوشت الگ کر لو۔ بھلے تم کتنی ہی زندگیاں نگل لو۔ ہم حق سے پیچھیں نہیں
ہٹیں گے۔ ہم اپنی سر زمین نہیں چھوڑیں گے۔
اقصیٰ بتول حیات
***********

Comments
Post a Comment