Aaj firqy jeet gaye aur islam haar gaya insaniyat haar geyi Article by Qamar Un Nisa Qamar
*آج
فرقے جیت گئے اور اسلام ہار گیا، انسانیت ہار گئی*_
فرقے
اور تعصب کی عینک اتار کر اپنے ایمان اور اندر کی انسانیت کو تلاش کریں۔ کوئی رمقِ
ایمانی مل جائے تو *شخصیت پرستی چھوڑ کر اسلام کے لیے کھڑے ہو جائیں*۔ رمقِ انسانی
مل جائے تو *تعصب چھوڑ کر ہر ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔*
*مملکتِ خدادادِ پاکستان میں 8 اکتوبر سے تا حال
ظلم کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ غزہ سے یکجہتی کرنے والوں کو غزہ کی داستانِ ظلم
کا حصہ بنا دیا گیا۔* مریدکے کے مناظر دیکھ کر بے اختیار غزہ یاد آ جاتا ہے۔
یہ
*فرعونی لہجہ 8 اکتوبر کو شروع ہوا، جب تحریکِ لبیک پاکستان کے یکجہتی فلسطین مارچ
کے شرکاء پر حملہ کیا گیا۔* حالانکہ یہ مارچ اعلان کے مطابق 10 اکتوبر کو شروع ہونا
تھا، لیکن اس کے آغاز سے پہلے 8 اکتوبر کو ہی حملہ کر کے دو افراد کو شہید کر دیا گیا۔
انسانیت کے علمبرداروں میں سے کوئی نہیں بولا۔ پھر مزید دو کو شہید کیا گیا، کوئی نہیں
بولا۔ ظاہر ہے اب صرف چار انسانی جانوں اور کئی زخمیوں کا خون اتنا قیمتی کب تھا کہ
کوئی آواز اٹھاتا۔ لیکن حد تو یہ ہے کہ *مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا، اس میں خون
بہایا گیا*، پھر بھی کہیں سے آواز نہیں آئی۔
پھر
سنو، اے اہلِ دنیا اور بطورِ خاص دنیا کے اے آزاد انسانو! خدارا ظلم کی اس داستان کو
ہر سوچ سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی نگاہ سے دیکھو۔
مصدقہ
اطلاعات کے مطابق 12 اکتوبر تک تقریباً 12 لوگوں کو شہید کر دیا گیا تھا، 130 شدید
زخمی ہو گئے۔ خواتین کو گھروں سے اٹھا لیا گیا، پھر بھی کوئی نہیں بولا سوائے اس کے
کہ چند لوگوں نے کمزور مذمتی بیانات دیے۔
کہیں
پر اسلام بیزار طبقے کی نظر میں اسلام اور مذہبی لوگوں کی نفرت کی اتنی دبیز تہہ تھی
کہ انسانیت ہار گئی۔ لوگ اپنا منصبِ انسانی ہار گئے۔ خدا کا حکم پسِ پشت ڈالا گیا کہ
جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالٰی ہے:
مَنۡ
قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ
جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ(المائدة32:5)
"
*جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا
تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر)
زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔* "
کہیں
پر فرقہ واریت جیت گئی تھی اور انسانیت ہار گئی، کہیں پر ذاتی مخاصمت بازی لے گئی اور
خلوص ہار گیا، کہیں پر سنی مسلمان نظر آتا رہا مگر اسلام نظر نہ آیا۔ فرمانِ خدا نظر
نہ آیا۔ الغرض آنکھوں پر پٹی بندھی رہی، چاہے وہ مشترکہ فرقے میں دھڑے بازی کی ہو،
دوسرے فرقے کی ہو یا نظریے کی، مگر ہائے افسوس، لوگوں کی آنکھوں پر اس چربی کی تہ اتنی موٹی تھی کہ وہاں مسلمان ہار گیا اور فرقہ
جیت گیا۔ ظالم کے خلاف جلدی اٹھنے کا خدا کا حکم پسِ پشت چلا گیا، مگر فرقہ آگے ہو
گیا۔ فکرِ حسین بھلا دی گئی اور یزیدی قوتوں کا ساتھ دیا گیا۔ کسی کو خدا کا حکم یاد
نہ آیا۔ اللّٰه رب العالمین نے فرمایا:
وَ اعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا
وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (ال عمران103:3)
"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے
ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو"
جب
اہلِ اقتدار نے، انسانی اور مسلمانی نبض کو اچھی طرح چیک کر کے معلوم کر لیا کہ سارے
مر چکے ہیں، کہیں ضمیر مر چکا، کہیں قلوب مر چکے، تو کہیں ایمان مر چکا، تو رات بھر
گولیاں برسانے کے بعد *13* *اکتوبر فجر کے وقت سانحہ مریدکے پیش آیا* ، جس میں شہداء
کی تعداد 500سے 700 تک بتائی جا رہی ہے، اور
یہ تعداد مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل
میڈیا شہداء کی تعداد 1000 بتا رہا ہے۔قائد سے لے کر کارکن تک کو گولیوں سے
بھون، دیا گیا، پھر بھی کوئی نہیں بولا۔ لوگوں پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔ لاشوں
کو جلا دیا گیا، زخمیوں کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچنے دیا گیا۔ لوگوں کی نعشیں بے یارومددگار
پڑی رہیں اور نالوں تلے روندی گئیں۔ واللہ ایک معصوم چہرے والے کی تصویر آتی ہے، ساتھ
لکھا ہوتا ہے: "یہ بھائی نہیں مل رہے، گھر والے بہت پریشان ہیں، کسی کو ملے تو
اطلاع دیں۔" کسی گھبرو نوجوان کی تصویر آتی ہے، ساتھ تحریر ہوتا ہے: "ان
بھائی کو گولیاں لگی تھیں، کسی کو ملے تو اطلاع دیں۔" پھر کڑیل جوان کی خون میں
لت پت تصویر اور ساتھ اس سے پہلے کی تصویر آتی ہے: "ان بھائی کی لاش کہیں ملے
تو اس نمبر پر اطلاع دیں۔"
بحیثیتِ
مجموعی جائزہ لیں تو *مساجد اور مدارس کو بند کیا گیا۔ اہم عہدوں پر فائز کارکنوں کے
گھروں کو مسمار کیا گیا۔* ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے۔ شروع میں *لاشوں کو غائب کیا
گیا۔* جب کہیں سے صدا احتجاج بلند نہیں ہوئی تو *پھر لاشوں کے اوپر گاڑیاں چلا دی گئیں*
، امت سوتی رہی۔ یہاں تک کہ *لاشوں کو جلا دیا گیا*، تب بھی کوئی نہیں اٹھا۔
خون
میں لت پت، سر پھٹے ہوئے، اعضاء کٹّے ہوئے، خون سے سڑکیں بھری ہوئی نظر آئیں۔ *قربانی
کے مہینوں میں جانور کا خون اتنا سستا نہیں ہوتا جتنا سستا مسلمان کا خون تھا مرید
کے، میں*۔ اور ایسے بے یارومددگار شہداء کی نعشیں پڑی رہیں۔ میتوں کو اٹھانے کی اجازت
نہ ملی نہ زخمیوں کو طبی امداد دینے کی اجازت ملی۔ خدا کی قسم، کربلا کا منظر یاد آ
گیا۔ کچھ *نعشوں کو گڑھا کھود کر اس میں پھینک دیا گیا*۔ ظلم و بربریت اپنے انتہا کو
پہنچ گںٔی۔ نعشوں کو 8 سے 9 ٹرکوں میں بھر کر کہیں لے جایا گیا۔ مرکزی کنٹینر جلا دیا۔
سارے ثبوت موجود ہیں۔ خون آلود سڑکوں کی صفائی سپیشل عملہ بھیج کر کروائی گئی۔ لیکن اب مین سٹریم میڈیا پر جھوٹ پھیلایا
جا رہا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ خود تحقیقات کرے۔ حافظ سعد رضوی، انس رضوی اور باقی قیادت
کی تا حال کوئی اطلاع نہیں ہے۔ نا جانے ان کے ساتھ کیا کچھ ہو چکا ہے۔
اے
دنیا میں بسنے والے با ضمیر انسانو! میرا سوال آپ سے ہے: آخر یہ تو ظالموں سے پوچھوں
کہ کس جرم کی پاداش میں ان کی جان لے لی گئی؟
کیا
یہ پاکستان کے شہری نہیں تھے؟ کیا یہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعت کے کارکن نہیں
تھے؟ کیا انہیں آئینِ پاکستان کا تحفظ حاصل نہیں تھا، یا احتجاج کا حق نہیں تھا؟ کیا
یہ لوگ انسان نہیں تھے؟ کیا یہ کسی ماں کے جگر کے ٹکڑے نہیں تھے؟ کیا یہ کسی بہن کی
دعا نہیں تھے؟ کیا یہ کسی کا سہاگ نہیں تھے؟ کیا یہ کسی باپ کی عمر بھر کی کمائی نہیں
تھے؟ کیا یہ اپنے معصوم بچیوں کے واحد کفیل نہیں تھے؟ کیا یہ کسی گھر کا سہارا نہیں
تھے؟ کیا یہ لوگ مسلمان نہیں تھے؟ اگر انسان بھی تھے اور مسلمان بھی تھے، تو پھر سنو
خدا اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سنو۔ اس کے نزدیک ایک بندہ مومن کی کیا اہمیت ہے۔
ارشاد
باری تعالٰی ہے:
اِنَّمَا
السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ
الۡحَقِّ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌo (الشوری 42:42)
"
*مواخذہ تو اُنھیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے
ہیں، اُن کے لیے دردناک عذاب ہےo*
"
نبیِ
رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَزَوَالُ
الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔(ترمذی:1395)
"
*اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔*"
صد
کروڑ افسوس، کسی کو حکمِ ربی یاد نہ آیا، وہ دین یاد نہ آیا جس نے کسی غیر مسلم کے
قتل پر بھی شدید مذمت کی — نہ صرف مذمت کی بلکہ غیر مسلم کے قاتل کو جنت جیسی بڑی نعمت
سے محروم قرار دیا۔
حضورِ
خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَلَا
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ
بِذِمَّةِ اللَّهِ فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ
مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا۔(جامع ترمذی:1403)
"
*آگاہ رہو! جو کسی معاہد کو قتل کرے جس کے لیے اللہ اور رسول کا ذمہ ہو (یعنی جو کسی
غیر مسلم شہری جس سے معاہدہ ہو کو ناحق قتل کرے) اس نے اللہ تعالیٰ کا ذمہ توڑ دیا؛
وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے آتی ہو گی۔*
"
اے
فرقے والو! اے قرآن پڑھنے والو! یہاں تو نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمی کافر
کی جان کی اتنی قدر و قیمت بتائی، پھر بندہ مومن کی جان کی کوئی قدر نہیں تھی؟ فرق
تو صرف فروعی مسائل کا تھا، اللہ کے بندوں تمہاری نظر میں یہ بڑا بھی تھا، تو خدا کے
حکم سے بڑا تو نہیں تھا۔ تم تو اس خدا کے ماننے والے ہو جس نے ذمی کافر کے قتل پر تمہیں
جنت سے محروم کر دیا، پھر تم مسلمان کے قتلِ عام پر خاموش رہ کر کس فرقے کی لاج رکھتے
رہے؟ کس اسلام کی پیروی کرتے رہے؟
وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo (النساء93:4)
"اور
جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور
اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار
کر رکھا ہے"o
اے
فکرِ حسین کے دعوے دارو! تمہیں یزیدی ظلم نظر نہ آیا؟ اے عینِ شریعت پر چلنے کے دعوے
دارو! تمہیں احکاماتِ شریعتِ محمدی نظر نہ آئے؟ اے توحید کی رٹ لگانے والو! تمہیں خدا
واحد و قہار کا حکم نظر نہ آیا؟ اے قرآن و حدیث کی بات کرنے والو! تمہیں قتل اور ظلم
و جبر کے خلاف قرآن و حدیث کا کوئی حکم نہ پہنچا؟ اے سنیت کی رٹ لگانے والو! تمہیں
طاغوتی قوت کے جابر چہرے سے ذبح ہوتا سنی نظر نہ آیا؟ اے انسانیت کے علمبردارو! تمہیں
انسانیت پر ہونے والا ظلم دکھائی نہ دیا؟ اے سوشل میڈیا کے مفتیان، اونٹ کی ٹانگ کٹنے
پر واویلا کرنے والو! ماؤں کے جگر کے ٹکڑے مرتے اور جلتے ہوئے تمہیں نظر نہ آئے؟ حقوقِ
نسواں، فیمنِزم والیو! تمہیں بے گناہ بزرگ عورتوں اور معصوم بچیوں کی گرفتاری نظر نہیں
آئیں؟ اے انسانی حقوق کے علمبردارو! مسلمان تو جانوروں جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتے آپ
کے لئے،پھر آپ کیوں تکلیف کرتے یو؟
اٹھو،
ثبوت دیکھو، سینکڑوں ثبوت مل جائیں گے کہ اسلام کے بیٹوں کو کیسے بے دردی سے شہید کیا
گیا۔ تحریک کے قائد اور شوریٰ کا کچھ علم نہیں کہ کہاں گئے، اُن کے ساتھ کیا بیتی،
کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اےجماعتِ علماء کرام! آپ سے بس اتنا کہنا ہے کہ اب آخری وقت ہے
شاید، اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ اس ملک کے لیے اور اسلام کے
لیے لاکھوں علماء کرام اور لاکھوں انسانوں نے اپنی جانیں دی ہیں۔ مرید کے، کے شہداء
کا خون نا صحیح، بزرگ علماء کرام کے خون کی ہی لاج رکھ لیں، جن کے زخموں پر نمک چھڑکا
گیا، جن کو گرم استریوں سے جلایا گیا، جن پر شدید ترین ظلم ڈھائے گئے لیکن انہوں نے
اسلام کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ظلم کے خلاف جلدی اٹھیں ورنہ قربانیاں زیادہ دینی پڑیں گی۔
اے
یوٹیوب چینلز پر انسانیت کا سبق دینے والو! یزیدیت کے خوف نے اتنی جلدی انسانیت کا
سبق بھلا دیا۔
اے صحافیوں کی جماعت! اگر اس ظلم کے خلاف آپ بھی
آواز بلند نہ کریں گے،تو انسانیت کا سر تو پہلے ہی،شرم سے جھک چکا ہے۔ اب انسانیت سے
بچا کچا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا۔ مانا کہ آپ پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں، لیکن کچھ
دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔ اور آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کتنا جھوٹ بول کر
حق کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
حضورِ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ
مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔(جامع ترمذی:2174)
*"ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر
جہاد ہے۔"*
اے
تاجروں کی جماعت! حق کے لیے آواز بلند کیجئے۔ اے جماعتِ وکلاء! قانون کی بالادستی کے
لیے آواز بلند کیجئے۔ جنگل کے اصول چل رہے ہیں اس ملک میں۔ اے انسانیت کے مسیحا، ڈاکٹروں
کی جماعت! اور کچھ نہیں تو زخمیوں کے حقِ علاج
کے لیے ہی آوازِ اٹھائیں۔ اے عدلیہ! جو کسی ایک جج کے لیے نامناسب الفاظ پر سو موٹو
ایکشن لے لیتی ہے، لیکن وہ مسلمان جس کے لیے ہمارے رسولِ رحمت حبیبِ خدا ﷺ نے خانہ
کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
لَحُرْمَةُ
الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ ، وَدَمِهِ ، وَأَنْ
نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا۔ (ابن ماجہ:3932)
*"اللہ کے ہاں مومن کی حرمت تیری حرمت سے بڑھ
کر ہے، یعنی اس(مومن) کے مال اور جان کی حرمت، اور یہ کہ اس کے بارے میں بد گمانی کرنا
بھی حرام ہے"*
جس مسلمان کی جان اور عزت و مال کی حرمت خانہ کعبہ
سے بھی بڑھ کر ہے، کیا آپ کے لیے وہ اتنی بے وقعت ہے کہ اس کے لیے آپ سو موٹو ایکشن
بھی نہ لے سکیں؟
اے
جماعتِ اساتذہ کرام کہاں ہو؟ اے میرے ملک کے نوجوان! کہاں ہو؟ مانا کہ آپ کا قصور نہیں،
اس معاشرے کے مغرب پرست والدین اور لبرل اساتذہ نے آپ کو، انسانیت پڑھائی نہ دین پڑھایا۔
لیکن کم از کم گریٹا تھنبرگ سے ہی انسانیت کا سبق سیکھ لیں۔ میرے نوجوانو! سوال کا
جواب تحقیق سے تلاش کریں۔ جھوٹے میڈیا سے نہیں۔۔۔
تمام
زندہ ضمیروں کو، ان تمام حقائق اور احکاماتِ ربی کی روشنی میں دعوت دی جاتی ہے کہ آوازِ
حق بلند کیجئے، نہ صرف آوازِ حق بلند کیجئے بلکہ یہ دیکھنے کی بھی کوشش کیجئے کہ آخر
اس ظلم کے پیچھے وجہ کیا ہے۔مساجد و مدارس کیوں سیل کیے گئے ہیں۔
اگر معلوم ہو جائے کہ بانی پاکستان سے اور
پاکستان کے لیے قربانی دینے والے لاکھوں لوگوں کے خون سے غداری کا پلان بنا لیا گیا
ہے، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسلامی تشخص کو مٹانے کی سازش، ابراہم اکارڈ، میں
شمولیت کی تیاری کر لی گئی ہے، تو پاکستانی قوم جاگ جائے۔ اب بھی ہم خوابِ غفلت سے
بیدار نہ ہوئے تو ہماری نسلیں بھی بھگتیں گی، ہم بھی بھگتیں گے اور ہماری داستان بھی
نہ رہے گی داستانوں میں۔ اس لیے فرقہ واریت کے علمبردار، اور پوری قوم،تحریکِ لبیک
پر ہونے والے ظلم کو اس کے پس منظر میں چھپی وجوہات کے ضمن میں دیکھے تو سمجھ آ جائے
گی کہ پہلی باری ان کی لگی ہے، اگلی آپ کی ہو گی۔ حقائق تک جلدی پہنچیں، ورنہ جب تم
اسلام کے تشخص کو مٹانے کے خلاف اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف نکلو گے تو آپ کو
بھی اسی بربریت کا سامنا کرنا ہوگا۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
ومَا
عَلَینا إِلَّا البَلاغ۔
قمرالنساء
قمر
****************
Comments
Post a Comment