Khawab jo tabah ho gaey article by RabiaArshad Manj

آرٹیکل:

خواب جو تباہ ہو گئے

تحریر: ربیعہ ارشد منج

ہم میں سے ہر انسان کی خواہش تو یہ ہی ہوتی ہے کہ میں کچھ بڑا کروں  میرا بھی نام ہو۔ جاگتی یا سوتی آنکھوں سے خواب تو سب دیکھتے ہیں۔ مگر ان خوابوں کو پورا کرنا بے حد مشکل ہے۔ ہر کسی کے الگ الگ خواب،اور پھر ان کی الگ الگ تعمیر۔ میرے بھی کچھ خواب تھے ۔ کچھ بچپن میں دیکھے تھے  اور بچپن میں ہی معلوم ہو گیا کہ بہن تیرے بس کی بات نہیں۔ اس لائن کو پڑھ کے زیادہ مسکرائے نا۔ آپ کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ اگر اتنے ذہین اور کامیاب ہوتے تو آرٹیکل کا عنوان پڑھ کہ خود کی زندگی کے ساتھ ریلیٹ کر کے اسے فوراً پڑھنے نہ آ جاتے۔ خیر کہانیاں ہم سب کی ہی تقریبآ ایک جیسی ہیں۔ کرنا ہم سب بہت کچھ چاہتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ کر نہیں پا رہے۔ اکثر ہمارے سات بجے یا آٹھ بجے کی ٹی وی ڈراموں میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی جاتی تھی جو کرنا بہت کچھ چاہتی ہے۔ مگر اس کے اپنے گھر والے یا معاشرہ اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ وہ ایٹ دی اینڈ بڑی مشکلوں سے کامیاب ہو جاتی ہے۔ مگر یہ صرف فلموں ڈراموں تک ہی ہے۔ حقیقت میں ہمارے گھر والے ہماری منتیں کر رہے ہیں کہ بھائی کر لے کچھ بن جا تیرا ہی فائدہ ہے لیکن ہم بھی پھر ہم ہیں۔ اپنے باپ کی بات کو ایسے اگنور کرتے ہیں۔ جیسے اجکل پورا پاکستان "سن میرے دل" ڈرامہ کو اگنور کر رہا ہے۔ سستی اور نا لائقی کا عالم تو یہ ہے۔ کہ ہم کوئی ان پڑھ گوار بچے نہیں ہیں۔ ہم پڑھے لکھے یونیورسٹیوں سےحق  حلال کی ڈگریاں لے کر بیٹھے ہیں۔ مگر یونیورسٹی سے نکلتے ہی سکون ، آرام کو ایسے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ جیسے میلے میں بچھڑنے والے بچے چند گھنٹے بعد اپنی ماں سے ملتے ہیں اور لپک کر رونے لگتے ہیں اور ماں کو سکون مل جاتا ہے کہ ابے میرے لال کہاں چلا گیا تھا۔ ہر دن ایک جیسا گزرتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے یہ سب اچھا نہیں ہے مگر ہم اتنے نااہل ہو گئے ہیں کہ اب کوئی فرق ہی نہیں پڑھ رہا سوشل میڈیا اور نیٹ فلیکس نے ایسا بے کار کر دیا ہے کہ اب سوچنے پہ ہی کوئی بات یاد آتی ہے۔ ورنہ یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔۔

میں اکثر خود سے سوال کرتی ہوں کی رائیٹر صاحبہ آپ نے بھی تو بڑے خواب دیکھے تھے بلکہ اپنی کامیابی کے قصے گھر والوں اور خاندان والوں کو سنا کے سب سے تعریفیں بھی تو وصول کی تھی۔ اب کیا ہو گیا۔ آج ایک سال بعد یوں ہی بیٹھے بیٹھے قلم پکڑ کر اپنی اور اپنوں جیسوں کی کہانی لکھنے بیٹھ گئی ہوں اور لکھتے ہی جو پہلا خیال ذہن میں آیا تھا وہ یہی تھا " خواب جو تباہ ہو گئے" زندگی انسان کو موقع دیتی ہے خود کو بدلنے کا کامیاب ہونے کا مگر کامیاب وہی ہے جو موقع سے فائدہ اٹھا لے۔ ایک بڑی سادہ سی اور سچی مثال ہے ۔ جیسے کرونا آیا۔ قدرتی آفت۔ جہاں سب لوگ گھروں میں بیٹھ گئے وہی سے کچھ لوگوں نے ولاگنگ کا سٹارٹ لے کر سوشل میڈیا پہ دھوم مچا دی اور کامیاب ہو گئے۔ ہم نا لائق ان کی ویڈیوز پر لائق اور ویوز دے کر انہیں کامیاب کرتے چلے گئے اور خود کا بیڑا غرق کر دیا ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں 2019 میں کھڑے تھے۔ کرونا کے دنوں میں وہ لوگ عقل سے کام لے کے کامیاب ہو گئے۔ ہم نے گھر بیٹھ کے موجیں ماری فارغ رہے۔ ایسا فارغ رہنے کا نشہ چڑا کہ 6سال بعد بھی ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ سستی بھری ہے میرے انگ انگ میں۔ یہ تو بات ہو گئ اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کرنے کی۔ خواب جو دیکھے تھے خود اپنے ہاتھوں سے ان کا گلا گھونٹ دیا۔ مگر اس میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر وقت بے چین ہیں۔ وہ ایسی زندگی گزارنا چاہتے ہی نہیں۔ مگر ان سے ہو کچھ نہیں رہا۔ ان کے لئے بس اتنا ہی کہوں گی کہ شکر کا کلمہ پڑھو بس۔ اور انجوائے کرو نیند پوری کرو کیونکہ جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے ناں وہ اچھا برا وقت نہیں دیکھتے بس کر گزرتے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی کچھ دوست احباب جو کہ کامیاب ہو گئے ہیں یا تو وہ کسی اچھی جگہ سے اچھا خاصہ کما رہے ہوتے ہیں۔۔ اور جب وہ ہم جیسوں سے ملتے ہیں فل ایٹیٹیوڈ کے ساتھ ۔ تو ایک دفعہ ان کے سامنے ہماری بولتی بند ہو جاتی ہے اور ہم بس یہی کہتے ہیں کہ یار تیرا اچھا سین ہے میں تو اچھے وقت کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں۔۔ حلانکہ اچھے وقت کی اینٹ سے اینٹ ہم نے خود اپنے ان بابرکت ہاتھوں سے بجائی تھی۔ ہماری ذہنی حالت اس قدر نازک ہو چکی ہے۔ کہ ہمیں لگتا ہے۔ کہ سارے مسئلوں کا حل صرف شادی ہے یہ بھی ایک بڑا سوال اور ایک لمبا ٹاپک ہے۔ اس آرٹیکل کے بعد مجھے بتائیں گا کہ کیا اس پر بھی کچھ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ خیر ہمیں لگتا ہے کہ ایک دفعہ شادی ہو گئ تو ایسے جیسے دنیا میں خوشحالی آ جائے گی۔ زندگی سیٹ ہو جائے گی  اور دل میں ایک الگ ہی قسم کا ڈر لگا ہوا ہے۔ جب بھی موبائل پکڑو آگے کسی نہ کسی نے قیامت کی نشانیاں لگائی ہوتی ہے۔ اور جب اسے اپنے اردگرد کے ماحول سے ریلیٹ کرتے ہیں تو بس یوں ہی لگتا ہے کہ صبح آنکھ دجال کی گود میں کھلے گی یا یاجوج ماجوج کی قوم دروازے کے باہر کھڑی چینخیں مار رہی ہو گی۔ اور پھر زندگی کا اینڈ۔ اور شادی کا خواب بھی باقی خوابوں کے ساتھ تباہ ہوتا نظر آ رہا ہوتا ہے۔

خیر زندگی ہر کسی کو اتنے موقعے نہیں دیتی جتنے ہمیں مل گئے ہیں انسان کے بچے بنیں اور اس دوڑتی دنیا کی ریس میں شامل ہو جائیں ۔ دنیا صرف انہیں یاد رکھتی ہے۔ جو جیت جاتے ہیں۔ ریس میں کھڑا ہر شخص ہر کسی کو یاد نہیں رہتا۔ ہم تو ریس میں بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔ کچھ بھی کرنا ہے۔ تو بس اٹھ کھڑے ہوں بستر سے نہیں۔ اس نااہلی سے جس نے آپ کو لوری سنا کر سلا دیا ہے۔ خود کچھ کرو گے تو خدا سے امید لگاؤ گے اب ایسا تو نہیں ہو گا ناں کہ تمہیں جگانے اور کامیاب کرنے کے لئے خدا خود زمیں پہ آ جائے جو عقل اور شعور دیا ہے اسے استعمال کرو جیسے ایک سال بعد میں کر رہی ہوں اگر میں کر سکتی ہوں۔ سستی کی ماری تو آپ سب بھی کر سکتے ہیں۔ " اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے". وعدہ کرے خود سے اور خوابوں کو زندہ کریں۔ اور ان سے بولیں۔ تمہیں پورا کرنے کے لئے دیکھا گیا تھا۔ نہ کہ خاموشی سے میرے ساتھ سو جانے کے لئے۔

The end 🔚

Comments