Saneha Punjab College (PGC)
Lahore
Article By Raheela Tahir
"سانحہ پنجاب کالج (PGC) لاہور "۔۔۔۔
راحیلہ طاہر
ہم
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ایک مسلم قوم ہیں ۔آے دن نئے سے نئے واقعات
سننے کے بعد لگتا نہیں ہے کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے ۔ہندوستان میں کسی لڑکی
کا ریپ کیا جاتا ہے/زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں فوری یہ بات
آجاتی ہے کہ غیر مسلم ہیں اسلیے وہاں عورت زات محفوظ نہیں ہے تو کیا جہاں مسلمان رہتے
ہیں وہاں پہ عورت محفوظ ہے ؟؟؟کبھی زینب کا ریپ کبھی سڑک کنارے جاتے ہوئے ماں کا اس
کے معصوم بچوں کے سامنے ریپ،کہیں یونیورسٹی میں لڑکی کو رزلٹ کے نام پہ بلیک میل کرنا
اور اس لڑکی کا ریپ ،کہیں بیٹی کا ریپ کہیں بہن کا ریپ ،ایک ریپ کیس میں اگر ہمارے
حکمرانوں نے سرعام سزا سنائی ہوتی پھانسی کے تختے پر لٹکایا ہوتا تو اس کے بعد ہر زینب
ہر بیٹی ہر بہن محفوظ ہوتی۔
پنجاب
کالج میں ہونے والا سانحہ کوئی معمولی بات نہیں ہے،ہمارے ملک کا نظام ہی ایسا ہے یہاں
پیسہ اور طاقت چلتی ہے انسانی زندگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔طاقت ور ہمیشہ جیت جاتا
ہے کمزور انسان کبھی بھی اپنی بے گناہی نہیں ثابت کر پاتا۔
ایک
باپ کی جوان بیٹی کو درندوں نے حوس کا نشانہ بنایا باپ کے آ نگن کی ایک کھلتی ہوئی
کلی مسل ڈالی۔ہزاروں خواب آنکھوں میں سجائے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئ ،نہ کسی سیاست
دان کا کچھ گیا نہ ان ظالموں کوئی پکڑ سکا ۔ایک کہانی کا رخ موڑنے کے لیے اس میں مختلف
پہلو سامنے لائے جائیں گے کہیں پہ عورت کو بدکردار بنایا جائے گا تو کہیں والدین کو
ڈرا دھمکا کے خاموش کر دیا جائے گا ،کہیں اسے خدا کی طرف سے آئی ہوئی موت کا نام دیا
جائے گا تو کہا جائے گا لڑکیوں کو تعلیم دلوانی نہیں چاہیئے لیکن ملزم کو کیفرِ کردار
تک کوئی نہیں پہنچائے گا ۔کچھ دن احتجاج ہو گا توڑ پھوڑ ہو گی پولیس کی جانب سے کہا
جائے گا انویسٹیگیشن جاری ہے ،کچھ دن ریپ کیس کی خبر اخبارات نیوز چینلز پر گردش کرے
گی اس کے بعد کیا ہو گا اس ریپ کیس کو لوگ۔ بھولنا شروع کریں گے تو اچانک سے ایک نئے
ریپ کیس کی خبر اخبارات میں شائع ہونے لگے گی ایک اور لڑکی/عورت درندگی کا نشانہ بن
کے گھر والوں کو نہ بھولنے والا صدمہ دے کر دنیا فانی سے رخصت ہو جائے گی ۔
یہ
ہے ہمارے ملک کا نظام یہ ہے ہمارے ملک کے حکمران ،ہر ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز ہمیشہ
دبائ جاتی ہے کیا پیسہ ہی سب کچھ ہیے کیا ایسے لوگوں کو ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا؟؟؟ایسے
لوگ کسی کی زندگی کا سودا چند پیسوں میں کرنے کے بعد سکون کی نیند کیسے سو لیتے ہیں
۔لاہور کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے طلباء انصاف کے لیے سراپائے احتجاج
ہیں لیکن معزرت کے ساتھ اس ملک میں انصاف ملنا نا ممکن ہے بہت سی قوم کی بیٹیوں کی
عصمت دری ہوتی آرہی ہے کچھ کو مار دیا جاتا ہے کچھ معاشرے کی باتیں سننے کی صلاحیت
نہ رکھتے ہوئے خود کشی کی بھینٹ چڑھ کے موت کو گلے لگاتی ہیں تو کچھ ساری زندگی کے
لئے ماں باپ اور معاشرے کے لیے طعنہ بن جاتی ہیں ۔
(چین میں3 گهنٹےمیں زنابالجبر کا فیصلہ)
ایک
دفعہ بیجنگ شہر کے ایک محلے میں ایک نَو عمر لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا اور
مجرم روپوش ہو گیا۔ چیئر مین ماؤ تک خبر پہنچی۔ وہ خود متاثرہ لڑکی سے ملے اور اس سے
پوچھا : "جب تم سے زیادتی کی گئی تو کیا تم مدد کے لیے چلائی تھیں ؟"
لڑکی
نے اثبات میں سر ہلایا۔
چیئر
مین ماؤ نے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور نرمی سے کہا: "میری بچی! کیا تم اسی
قوت کے ساتھ دوبارہ چِلا سکتی ہو ؟"
لڑکی
نے کہا : " ہاں ۔۔۔ "
ماؤ
کے حکم پر انقلابی گارڈ کے کچھ اہلکار نصف کلومیٹر کے دائرے میں کھڑے کر دیے گئے ۔
اس کے بعد لڑکی سے کہا گیا کہ : "پوری قوت کے ساتھ چیخو ۔۔۔!"
لڑکی
نے ایسا ہی کیا۔ چیئرمین ماؤ نے تمام اہلکاروں کو بلایا اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ
لڑکی کی چیخ سنائی دی یا نہیں ؟سب نے کہا : "لڑکی کی چیخ سنائی دی گئی ۔چیئرمین
ماؤ نے اگلا حکم صادر کیا کہ نصف مربع کلومیٹر کے اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار
کر لیا جائے اور تیس منٹ کے اندر اگر مجرم کی درست نشاندہی نہ ہو سکے تو تمام گرفتار
مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔
حکم
کی فوری تعمیل ہوئی اور دی گئی مہلت کو ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجرم کی
نشاندہی ہوگئی اور اگلے بیس منٹ کے اندر اندر مجرم کو پکڑ کر چیئر مین ماؤ کے سامنے
پیش کر دیا گیا۔ لڑکی نے شناخت کی۔ موقع پر فیصلہ ہوا اور مجرم کا بھیجہ اڑا دیا گیا۔
جرم سے سزا تک کا وہ دورانیہ محض تین گھنٹوں پر مشتمل رہا۔ اسے کہتے ہیں فوری انصاف
۔۔۔ جس کے بل بوتے پر آج چین کامیاب ملکوں کی فہرست میں سب سے نمایاں ھے.قیامت خود
بتائے گی کہ قیامت کیوں ضروری تھی جتنا زور عورت کے پردے پر دیا جاتا ہے اتنا ہی زور
مرد کی تربیت پہ دیا جائے تو معاشرہ کافی بہتر ہوسکتا ہےریپ والی لڑکی مری نہیں اس
کو مارا گیا ہے کیونکہ اسکے بیان کے بعد بہت سے لوگ ننگے ہونے والے تھے۔
والدین
اور اساتذہ کی یہ سخت غلطی ہے کہ حیا کا سبق صرف بیٹی ہی کو پڑھاتے ہیں
بیٹوں
کو حیا سکھائیں کہ ان سے کسی بھی دوسری عورت کو َخطرہ نہ ہو
آپ
کے بیٹے کہیں بھی جائیں کوئی عورت ان سے خوفزدہ نہ ہو۔۔۔۔اپنے بیٹوں کو بھی باحیا بنائیں.
سانحہ
پنجاب کالج لاھور میں ملوث ایک سیکیورٹی گارڈ کی پشت پناہی نہیں ہے یہ اس میں ملوث
کوئی بڑی شخصیت ہے جس کی وجہ سے نہ تو سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لائ جا رہی ہے نہ ہی
اب تک کالج میں موجود انتظامیہ کو گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ کہ یہ بات تو سچ ہے کسی
ایک کی گرفتاری سے بہت سے چہرے بے نقاب ہوں گے۔بہت سے راز افشاں ہوں گے۔یہ کسی ایک
کی بیٹی کا معاملہ نہیں ہے یہ آنے والے کل میں بہت سی بیٹیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔اس
لئے انصاف کے لیے آواز اٹھائیں۔عوام کی خاموشی کل کسی اور کی بیٹی کی جان لے سکتی ہے
یا درندگی کے خوف سے بیٹیوں کی تعلیم پہ پابندی لگ جائے گی ۔بیٹی کو جینا سکھانا ہو
گا بیٹی کو مظبوط بنانا ہو گا ،بیٹی کو حالات سے لڑنا سکھانا ہو گا ، ورنہ بہت سی بیٹیاں
عصمت دری کے بعد خودکشی جیسی موت کو گلے لگانے پہ مجبور ہو سکتی ہیں ۔
آیئے
انصاف کے لیے آواز اٹھائیں ،درندوں کو بے نقاب کریں ۔ملک کی بیٹیوں کو تحفظ دلوائیں
۔آواز اٹھائیں انصاف کے اپنی بیٹی/بہن کے لیے ملک کی ہر بیٹی/ بہن کے لیے.
اللہ
تعالیٰ ملک کی ہر بیٹی بہن کی عزت محفوظ رکھے ۔آمین۔
**************
Comments
Post a Comment