بٹرفلائی
کی قلم سے
. . . . . *ازقلم بٹرفلائی*
. . . . . . . (*عشق حقیقی * )
عشق
تو صرف اوپر اسمان والے سے ہی ہوتا ہے" عشق حقیقی"۔عشق تو صرف اللہ سے کیا جاتا ہےاور اسی سے ہوتا ہے ہم
لوگوں سے محبت کر بیٹھتے ہیں جبکہ اصلی محبت کا حقدار تو صرف ایک اللہ ہی ہے ہمارے
دل کی دھڑکن جو لوگوں کے نام پر دھڑکتی ہے
وہ تو فقط ایک اللہ کے نام پر دھڑکنی چاہیے ہمارے دل کا وہ خاص ایک کونا جو
ہم لوگوں کو دیے بیٹھتے ہیں وہ تو صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہیے جو محبت ہمیں اللہ
سے کرنی چاہیے وہ ہم اس کے بندوں سے کر بیٹھتے ہیں اس لیے اللہ اپنے انہیں بندوں کے
ہاتھوں ہمیں تڑواتا ہے اور پھر پوچھتا ہے؟
کہ بتا کون ہے !تیرا میرے سوا ۔عشق مجازی میں
تڑپے بغیر ،چوٹ کھائے بغیر ہم
عشق
حقیقی سے نہ واقف ہی رہتے ہیں ۔عشق مجازی ہمیں
عشق
حقیقی سے اشنا کرواتی ہے
عشق
مجازی پہلی سیڑھی ہے عشق حقیقی تک کے سفر کی
پھول
کی قدر اس کی مہکتی خوشبو سے ہوتی ہے خوشبو کے بغیر پھول کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی
پھول میں خوشبو نہ ہو تو پھول پھول نہیں کہلاتا
بغیر خوشبو کے پھول کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ پھول بے معنی ہے جس میں خوشبو نہ ہو
اسی طرح وہ دل کسی کام کا نہیں جس میں محبت نہ ہو محبت کے بغیر دل مردہ ہے اس طرح پودوں
کو مرجھانے سے بچانے کے لیے پودوں کو سیراب کرنا ضروری ہے کیونکہ پودے کی ضرورت پانی
ہے بغیر پانی کے پودے مرجھا جاتے ہیں اس طرح دل میں محبت کا ہونا بے حد لازمی ہے بغیر
محبت کے دل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح انسان کی
تروتازگی
کے لیے دل میں محبت کا ہونا بے حد لازمی ہے محبت کے بغیر دل بیکار ہے وہ دل دل نہیں
جس میں اللہ نہ رہتا ہو انسان کے لیے اگر کچھ ضروری ہے تو وہ ہے عشق حقیقی محبت انسان
میں تڑپ پیدا کرتی ہے ایک لو پیدا کرتی ہے انسان کو خود کو سنوار نے پر مجبور کر دیتی
ہے
سب
مرض کی دوا سب زخم کا مرہم فقط ایک لفظ اللہ میں ہے
اللہ
نے کسی انسان کے دو دل نہیں بنائے ہر انسان کو ایک دل سے ہی نوازا ہے اور ہم اس ایک
دل میں سو محبتیں بسائے بیٹھے ہیں جبکہ ایک دل میں ایک محبت ھی بستی ہے تو کیا تم نے
حضرت یعقوب علیہ السلام کی مثال سے کچھ نہیں سیکھا جب وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی
جدائی میں غمگین رہتے تھے اور دن رات روتے
تھے اور اللہ سے اپنے بیٹے کے ملنے کی دعا کیا کرتے تھے اور پھر یعقوب علیہ السلام
کو اللہ نے اپنی حکمت عطا کی اور پھر یعقوب
علیہ السلام کو سمجھ ایا کہ وہ اپنے ایک دل میں دو محبتیں بسائے بیٹھے ہیں جب
کہ دلوں میں صرف ایک محبت بسا کرتی ہے پھر چاہے وہ مجازی ہو یا پھر حقیقی اور جیسے
ہی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی محبت سے دستبرداری اختیار کی تو اسی پل ان کو یوسف علیہ السلام کی خوشبو بھی انے لگی اور
اللہ نے جلد ہی ان کو ان کے بیٹے سے بھی ملوا دیا
ہم
اس ذات کی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن اس مخلوق کے بنانے والے کو نظر انداز
کر دیتے ہیں وہ اپنے بندوں کے ہاتھوں اس لیے ہمیں تڑواتا ہے کیونکہ ہم اس کے بندوں
سے بے پناہ بے حد محبت کر بیٹھتے ہیں جس کا صرف اور صرف حقدار ایک اللہ ہے
. . . . . . ( *اللہ کی محبت
*)
ایک
ماں اپنے بچے کی چھوٹی سی خراش پر تڑپ سی جاتی
ہے تو وہ تو سب مالکوں کا مالک ہے وہ جو اپنے
بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ کبھی اپنے بندے کو تکلیف میں نہیں دیکھ
سکتا وہ جو تمام جہانوں کا رب ہے وہ کبھی اپنے بندے کو پریشان
نہیں دیکھ سکتا ہم انسانوں سے ایک ماں کا پیار ہی
نہیں سنبھالا جاتا وہ تو پھر الرحمن اور رحیم ہے جو بندے سے انگینت پیار کرتا
ہے ایک ماں کا پیار ہی انسان کو رولا دیتا
ہے تو سوچو آ سمان والے کے پیار کا کیا عالم ہوگا ؟
جب
انسان روتا ہے غمگین ہوتا ہے تو وہ ذات تڑپ
اٹھتی ہے وہ اپنے فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھ کر آؤں
میرا بندہ کیوں اتنا غمگین ہے اور کیوں
زور
و قطار رو رہا ہے فرشتے جاتے ہیں اور پھر جب اتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے معلوم ہے مجھے کہ میرا بندہ اتنا
غمگین کیوں ہے کیونکہ میں نے اپنے بندے کی
اس سے محبوب ترین چیز چھین لی ہے اس لیے وہ
غمگین ہے اور تڑپ رہا ہے دیکھنا میں عنقریب اپنے بندے کو اتنا نوازوں گا کہ وہ حیران
رہ جائے گا اسے وہ عطا کروں گا جو اس کے گماں میں بھی نہ ہوگا پھر وہ سب اپنے دکھ درد
غم بھول جائے گا ؟
. . . . . (*انسان اور
اللہ کی محبت میں فرق * )
ہم
ہمیشہ ان لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں اور جو ہم سے محبت کرتے
ہیں ہم ان سے دور بھاگتے ہیں انسان بھی کتنا عجیب ہے بندوں کی محبت کے لیے دربدر پھرتا
ہے اور ایک اللہ ہے جو ہم سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اسے بھول بیٹھتے ہیں دنیا
میں جب ہم کوئی ایک غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ہمیں بار بار ہماری اس غلطی کا طعنہ دیا
جاتا ہے چھوٹی سی غلطی پر انسان ہماری ساری محبتیں بلا بیٹھتا ہے اور اسے گڑگڑا کر
معافی مانگنے کے باوجود بھی وہ ہمیں معاف نہیں کرتا کتنا فرق ہے نا بندے اور رب کی
محبت میں کیا شان ہے میرے اللہ کی محبت کی اللہ کی محبت بھی کتنی نرالی ہے اللہ کی
ذات تو غفور الرحیم ہے ہم کتنے ہی گنہگار کیوں نہ ہوں ہمارے ایک لفظ "اللّه
" کہنے پر ہی وہ ہمیں بخش دیتا ہے وہ کبھی ہمیں ہماری غلطیوں کا طہنہ نہیں دیتا
ایک انسان سے جب ہم ایک دو دن بعد نہیں کرتے وہ ہم سے ناراض ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور
ایک اللہ ہے جس سے ہم اس فریبی دنیا میں بھلائی بیٹھتے ہیں کتنا کتنا عرصہ ہے اس کو
پکارتے نہیں ہیں وہ کبھی ہم سے ناراض نہیں
ہوتا وہ کبھی ہمیں یہ نہیں کہتا کہ اتنا عرصہ کہاں تھے اور اب کیوں ائے ہو بلکہ وہ
تو ہمیشہ یہی کہتا ہے اؤں میرے بندے مانگو مجھ سے میں عطا کروں گا کیونکہ میں ہی عطا
کرنے والا ہوں
بقول
شاعر
ہم
نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن
تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
ایک
محبت کرنے والا انسان دوسرے انسان سے بھی یہی جذبات و احساسات رکھتا ہے
کہ وہ بھی مجھ سے ایسے ہی محبت کرے جس طرح میں کرتا ہوں یا کرتی ہوں ہم انسان
یک طرفہ محبت کر ہی نہیں پاتے ہم چاہتے ہیں
کہ جس طرح ہم کسی کو چاہیں بدلے میں وہ بھی ہمیں ویسا ہی چاہے ہم اپنی محبتوں میں ادلے
کا بدلہ چاہتے ہوتے ہیں کتنا گہرا فرق ہے نا ہم انسانوں کی اور اللہ کی محبت میں وہ ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے کیا شان ہے اس رب العزت کی وہ بدلے میں یہ نہیں چاہتا
ہم سے کہ ہم اسی کی طرح اس سے محبت کریں اور نہ ہی ہم انسان کر سکتے ہیں اس جیسی محبت
اس سے
وہ
ہم سے اگر کچھ چاہتا ہیں تو بس اتنا ہی بس
یہی کہ مجھ سے مانگنا نہ چھوڑنا مجھے بھول نہ جانا
. . . . . .. . ( غفور الرحیم )
ہم
کسی کو اپنی انکھوں کے سامنے نماز پڑھتا ہوا دیکھ لیں تو اسے کہتے ہیں پلیز میرے لیے
دعا کرو اللہ تمہارے قریب ہے وہ تمہاری سنتا ہے پلیز میری یہ دعا کر دو اللہ سے ہم
انسانوں سے کہتے ہیں کہ میرے لیے اللہ سے یہ
دعا کرو ہم خود کیوں نہیں کرتے دعا ہم خود کیوں نہیں مانگتے ہم انسان اپنی محبت میں
فرق کرتے ہیں جب کہ میرے اللہ کی محبت تو اتنی نرالی ہے کہ وہ سب سے ایک جیسا پیار کرتا ہے وہ تو صراط مستقیم کو بھی
عطا کرتا ہے اور بھٹکوں ہووں کو بھی عطا کرتا ہے انسانوں کے سامنے گڑگڑانے سے اچھا ہے اللہ کے سامنے گر گراؤ تڑپ کے
ساتھ اس سے مانگو جو دعا ہم خود کر سکتے ہیں اپنے لیے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا جو
ہم خود مانگ سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں مانگ سکتا جتنی تڑپ دکھا کر مانگو گے اتنی جلدی قبول فرمائے گا اورکہو اس پاک ذات سے کہ اے میرے رب تجھ سے نہیں مانگوں
گی تو اور کس سے مانگوں گی تیرے پاس مانگنے
کے لیے نہیں اؤں گی تو اور کس کے پاس جاؤں گی اور ہم تو صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں
اور صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں وہ تو اتنارحمان
ہے کہ ہمارے بن مانگے ہمیں وہ سب عطا کر دیتا ہے جو ہم چاہتے ہیں تو سوچو جب
ہم اس سے تڑپ کے ساتھ مانگیں تب اس کی رحمت کا کیا عالم ہوگا
؟
سورہ
الاحزاب ایت نمبر 3(اور اپ اللہ تعالی پر بھروسہ رکھیںےاور اللّه کافی کارساز ہے )
وہ تو کہتا ہے اپنے بندوں سے جب
تم مجھے پکارتے ہو تو میں بخش دیتا ہوں وہ تو کہتے ہیں اپنے بندوں سے کہ تم زمین سے
لے کر اسمان تک ہی کیوں نہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہو مجھ سے بخشش طلب کرو میں بخش دوں
گا
بقول
شاعر
سراپہ
معصیت میں ہوں ،سراپہ مغفرت وہ ہے
خطا
کوش روش میری ،خطا پوشی کام اس کا
مایوسی
کفر ہے اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو ایک بار اسے دل سے پکار کر تو دیکھو وہ اواز
نہ دے تو کہنا ایک بار اس سے مانگ کر تو دیکھو وعطا نہ کر دے تو کہنا
سورہ الاعراف ایت نمبر 156(میری
رحمت سب چیزوں سے وسیع ہے )
. .. . . . . (ہرمشکل
کے ساتھ اسانی )
مشکلات
اپنے ساتھ ہمیشہ اسانیاں لاتی ہے مشکلات کبھی اکیلی نہیں ایا کرتی ہمیشہ اسانیوں کو ساتھ ہی لایا کرتی ہے ہم اپنی مشکلوں میں اتنا
کھو جاتے ہیں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی مشکلات کے ساتھ ائے گی اسانیوں کو نظر
انداز کر بیٹھتے ہیں
سورہ
الم نشرح ایت نمبر 5(سو بے شک مشکل کے ساتھ اسانی بھی ہے )
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ
کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی تنگی کے
ساتھ ہے اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ اسانی ہے اور بے شک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور اسانی
ہے تو جہاں مشکل ائے تو وہاں اسانیاں بھی تلاش
کر
. . . . . . . . . . .( *فانی
دنیا *)
یہ
زندگی ایک دھوکہ ہے قائم اور دائمی زندگی تو اخرت کی ہے
سورہ
العنکبوت ایت نمبر 64 (اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور اصل زندگی
عالم اخرت کی ہے )
انسان
اس فریبی دنیا کے لیے کتنی جدوجہد کرتا ہے کتنے پاپڑ بیلٹا ہے یہ جانتے ہوئے بھی نہ
تو یہ زندگی اور نہ ہی زندگی میں رہنے والی
چیزیں ہمیشہ کے لیے ہیں
سورۃ
توبہ ایت نمبر 38(دنیاوی زندگی کا یہ سر و سامان اخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا )
اس
زندگی کا نام ہی اصل میں فنا ہو جانا ہے اپنی اخرت کی فکر کرے سوچا ہے کہ کیا منہ دکھاؤ گے قیامت کے روز اللہ کو کیسا سامنا کرو
کہ گئے اس کا ؟ زندگی ایک سفر ہے منزل مقصود پر پہنچنے تک راستے میں بہت سے مسافر سے سامنا کرنا پڑتا ہے ہر مسافر کی منزل علیحدہ علیحدہ ہے مسافر ابتدا میں ایک ساتھ تو رہتے ہیں پر سفر کے اخر میں چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ ان کی منزل کوئی اور ہوتی
ہے انسان کی منزل الگ ہے دوسرے سے اور جب تک ہم اپنی منزل پر پہنچتے ہیں سوائے ہمارے
خود کے اور کوئی نہیں ہوتا ہمارے ساتھ اس زندگی میں شروع سے لے کر اخر تک بہت سے انسانوں سے ہمارا سامنا پڑتا ہے اور کوئی کتنا ہی اچھا ہو اخر میں چھوڑ جاتا ہے کیونکہ اس
کی منزل کوئی اور ہوتی ہے اس لیے اس فانی دنیا سے جی لگانا چھوڑ دے کیونکہ اخر میں ہمارے خود کے کوئی نہیں ہوگا ہمارے ساتھ ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا فانی ہے اس کے باوجود ہم سب اس فریبی
دنیا میں انسانوں سے جی جان لگائے بیٹھے ہیں
سورۃ
الانفال ایت نمبر 67(تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو حالانکہ اللہ کے پیش نظر اخرت ہے
اللہ غالب اور حکیم ہے )
انسان
انسانوں سے بچھڑ جاتے ہیں دوست بدل جاتے ہیں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تعلق جدا ہو جاتے ہیں جب ہم نہیں تھے تب بھی اس دنیا
میں ایک ذات موجود تھی اور جب ہم نہیں رہے
گے تب بھی ایک ذات موجود رہے گی وہ
ذات اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی کبھی
مایوس نہیں کرتی
جہاں
کوئی نہیں ہوتا وہاں اللہ ہوتا ہے جہاں سب چھوڑ دیتے ہیں وہاں اللہ ہی
ہے جو ہمیں تھام لیتا ہے جہاں ساری امیدیں
سارے سہارے ختم ہو جاتے ہیں وہاں اللہ ہی روشنی
دیتا ہے گرنے سے بچا لیتا ہے ۔
. . . . . (*یقین سے بھی بھر
کر یقین *)
وہ
جس ذات نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ
سے بچایا تھا وہ جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالا تھا وہ جس نے
موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات دلوائی تھی اور جس نے حضرت یونس علیہ السلام کو
مچھلی کے بیٹ سے باہر نکالا تھا وہ جس نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ
السلام سے ملوا دیا تھا
حضرت
ابراہیم علیہ السلام کا اور تمہارا رب ایک ہی ہے حضرت یوسف علیہ السلام کا اور تمہارا
رب ایک ہی ہے حضرت موسی علیہ السلام کا اور تمہارا رب ایک ہی ہے حضرت یونس علیہ السلام
کا اور تمہارا رب ایک ہی ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کا اور تمہارا رب ایک ہی ہے
رب
سب کا ایک ہی ہے بس بات یقین کی ہے وہ جو ابراہیم علیہ السلام کو، یوسف علیہ السلام
کو ،موسی علیہ السلام کو، یونس علیہ السلام کو ،یعقوب علیہ السلام کو ،جو اس رب العزت
پر یقین تھا
ہم
سب پر یقین کر بیٹھتے ہیں سوائے اس اسمان والے
کے ہم اس ذات پر شعبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ پتہ
نہیں وہ ہمیں دے گا بھی کہ نہیں اس ذات پر
یقین کر کے تو دیکھو اس پاک ذات سے مانگ کر تو دیکھو وہ کن نہ کہے تو کہنا اللہ کو
اپنے بندے سے صرف ایک یقین ہی تو چاہیے ہوتا ہے وہ اپنے بندے کے یقین کو کبھی نہیں
توڑتا
اپنی
مایوسیوں کو نئی روشنیاں دیں اور اس ذات پر یقین رکھیں کہ وہ کبھی اپنے بندے کو اپنے
در سے مایوس نہیں لوٹاتا
. . . . . . . . (*کن فیکون *)
مانگنا
ہے تو صرف ایک اللہ سے مانگو اگر جھکنا ہے تو صرف ایک اللہ کے سامنے جھکو ہمیشہ اسی
سے مانگو اور اسی کے سامنے جھکو ایک اللہ کی عبادت کرو کیونکہ زندگی کا مقصد ہی اس
کی بات کرنا ہے
حدیث
قدسی ہے
( اے ابن ادم یعنی ادم کی اولاد تم اپنے اپ کو میری عبادت کے
لیے فارغ کر دو میں تمہارے دل کو بے نیازی سے بھر دوں گا )
اللہ
کی رضا میں راضی ہونا سیکھو اس کی رضا میں راضی ہو جاؤ اس کی رضا میں راضی ہو کر دیکھو یہ تنگ زمین تم پر آ
ساں ہونے لگے گی
چیزیں
ہمارے لیے مشکل ہیں اس کے لیے سب اسان ہے چیزیں ہماری لیے نا مکن
ہے اس کے لیے تو سب ممکن ہے اس رب العزت کے
لیے تو صرف ایک کن کہنے کی دیر ہے مانگو اس ذات سے کیونکہ وہ عطا کرتا ہے اور وہی عطا
کرنے والا ہے وہ اپنے بندے کو اپنے در سے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا اس کی بارگاہ
میں اٹھائے گئے ہاتھ کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتے
وہ
پاک ہستی اپنے ماننے والوں کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی امید رکھنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتی
. . . . . . (*خوبصورت منزل
*)
جب
ہم سفر اختیار کرتے ہیں تو راستے میں بہت سی مشکلات اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے سفر میں مشکلات کے باوجود ہم اپنا سفر جاری رکھتے ہیں سفر نہیں چھوڑتے کیونکہ ہمیں
معلوم ہوتا ہے کہ ہماری منزل خوبصورت ہے اور اس خوبصورت منزل پر پہنچنے تک ہم راستے میں ائے گی ساری مشکلات اور
دشواری کو بھول جاتے ہیں یاد رکھتے ہیں اگر
کچھ تو صرف خوبصورت منزل اسی طرح جب ہم سفرے اللہ پر نکلتے ہیں تو راستے میں بہت سی مشکلات ،دکھ، درد غم، تکلیف ،اذیت اور مایوسی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے سفر کے ابتدا میں جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سفر اختتام
پر اس کی منزل اتنی خوبصورت ہے بے پناہ بے حد خوبصورت ۔انسان بڑا جلد باز ہے وہ کہتا ہیں بس میں جو مانگوں مجھے اسی وقت حاصل ہو جائے
جب کہ ہر چیز صبر سے ملتی ہے
قران
جواب ہے اپ کے دل و دماغ پر حاوی ان سب سوالات کا اپ قران کو تھام لو قران اپ کو تھام
لے گا قران اپنے تھامنے والوں کو کبھی گرنے نہیں دیتا ۔
اللہ
سے محبت ایک دم سے نہیں ہوتی بہت بار ٹوٹنا
پڑتا ہے گرنا پڑتا ہے اپنی انکھوں کے سامنے اپنوں کو بچھڑتا ہوا دیکھنا پڑتا ہے پھر جا کر تو ملتی ہے اللہ اور اس کو محبت
اس
رحمان کی محبت کو اپنے ہاتھوں سے اگر کھودو گے یا گنوا دو گے تو سب کھودو گے سب گنوا
دو گے اور اگر اس رحمان کی محبت کو پا لو گے
تو سب پا لو گے
پھر
کوئی حسرت، حسرت نہیں رہے گی۔ پھر کوئی خواب ،خواب نہیں رہے گا۔ پھر کوئی خواہش،
خواہش نہیں رہے گی ۔پھر کوئی ارزو، ارزو نہیں رہے گی۔ پھر کوئی تمنا، تمنا نہیں رہے
گی ۔
عشق
حقیقی کی ابتدا جتنی کھٹن ہے اس کی منزل اتنی ہی
خوبصورت ہے
اللہ
کی طرف سے بلاوا انے سے پہلے ہی اس کی طرف رجوع کر لوں اللہ کو پیارے ہونے سے پہلے
ہی اللہ کو پیارے ہو جاؤ
. . . . . . . . . (*دعا *)
اے
ہمارے رب !ہم سب پر رحم فرما تو رحم نہیں کرے
گا ہم پر تو کوئی اور رحم نہیں کرے گا اے ہمارے
رب! ہم سب پر اپنا کرم کر دے تو کرم نہیں کرے گا تو کوئی اور کرم نہیں کرے گا اے ہمارے رب! کن فیکون کو
اسان فرمادے ہیں ہمارے لیے
اے
ہمارے رب! ہم سب کو اپنی ذات پر یقین کرنا سکھا دیں جو ہر مشکل حالات میں ہمیں حوصلہ
دے سکے اور ہماری ٹوٹی پھوٹی عباتوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور ہمارے گناہوں کو مٹا دے بے شک تو بخشنے والا اور
قبول فرمانے والا ہے
امین
مجھے
ضرور بتائیے گا کہ اپ لوگوں کو میری یہ تحریر کیسی لگی اور اپ کو اس سے کیا کیا سیکھنے
کو ملا جانے انجانے میں کچھ غلط لکھ دیا ہو یا کہہ دیا تو معذرت خواہ ہوں
شکریہ
*****************
Comments
Post a Comment