رات کے
سناٹے میں، دو سائے آہستہ آہستہ فارم ہاؤس کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ دونوں کے ہاتھوں
میں ٹارچیں تھیں، جن کی روشنی کی پتلی سی لکیر ان کے راستے کو روشن کر رہی تھی۔ ان
کے دلوں میں خوف اور تجسس کا ملا جلا احساس تھا۔ جیسے کوئی ان دیکھے خطرے کی طرف قدم
بڑھا رہے ہوں۔
جب وہ فارم
ہاؤس کے قریب پہنچے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ایک نے ہچکچاتے ہوئے سرگوشی کی،
"کیا ہمیں واقعی یہاں آنا چاہیے تھا؟"
دوسرے نے
تھوڑی ہمت کرتے ہوئے جواب دیا، "ہاں، ہمیں یہ جاننا ہے کہ اندر کیا چھپا ہوا ہے۔"
وہ دروازے
کے قریب پہنچے۔ دروازے پر جمی مٹی اور زنگ آلود کنڈیاں دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ
اسے شاید برسوں سے کھولا نہ گیا ہو۔ ایک نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے دروازے پر دستک دی۔
دستک کی آواز نے فضا کی خاموشی کو توڑ دیا، اور ایک سرد ہوا کا جھونکا ان کے جسموں
سے ٹکرا گیا۔ ان کی ٹارچوں کی روشنی لرزتے ہوئے دروازے پر پڑی، اور اگلے ہی لمحے، دروازے
کی چرچراہٹ نے ان کے دلوں میں دہشت کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔
دھیرے سے
دروازہ کھلا۔ ان کی ٹارچوں کی مدھم روشنی میں، وہ اندر کے منظر کو دیکھ کر سہم گئے۔
کمرے کے ہر کونے میں مکڑیوں کے جالے جھول رہے تھے، اور ہر چیز پر مٹی کی موٹی تہہ جمی
ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت یہاں رک گیا ہو، اور یہ جگہ ماضی کی کسی خوفناک
کہانی کا حصہ ہو۔
اچانک،
ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ دروازے کی زور دار آواز
نے انہیں اپنی جگہ پر منجمد کر دیا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گئے، جیسے ان کی ہمت
نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہو۔ اندر کی پراسرار فضا میں، وہ دونوں خوف کے مارے ایک دوسرے
کی طرف دیکھنے لگے، جیسے کچھ ناگہانی ہونے کا انتظار کر رہے ہوں۔
یہ فارم
ہاؤس اب ان کے لیے صرف ایک عمارت نہیں رہا تھا، بلکہ ایک زندہ خواب کی مانند تھا، جس
میں قدم رکھنا شاید ان کی زندگی کا سب سے بڑا خطرہ بننے والا تھا۔
۔۔۔۔
Comments
Post a Comment