Poetry by Rimsha Riaz

ضبط کی انتہا دیکھی

نہ جانے کب اور کہاں دیکھی

آنسو تھے کہ چھلکتے گئے

دو پل کی خوشی بھی کہاں دیکھی

جو ملا ، کچھ دیر کے لیے ہی ملا

ملاقات تو دور ہم نے جھلک تک بھی کہاں دیکھی

کچھ اس طرح سے وہ میرے خیالوں میں رہا

اس شخص میں کچھ خاص تھا ، کائنات پھر ہم نے کہاں دیکھی

اور روگ تھے ، یہ غم تھے جو بھی تھے کم تھے

اسے دیکھ کر جو خوشی ملتی وہ ہم نے پھر کہاں دیکھی

ستم یہ نہیں وہ خالص تھا دل نشین تھا

اس جیسی صورت پھر ہم نے کہاں دیکھی

 

Rimsha Riaz

***************

ایسا نہیں ہے کہ پاس نہیں میرے کچھ لکھنے کو

الفاظ کا جم غفیر ہے

پر قلم الجھن کا شکار ہے

کس درد کو کہاں لکھوں

اسے الجھن میں مجھ پہ سکتہ طاری ہے

محبت ساری ایک طرف

میرا دین سب پہ بھاری

وہ ہم مذہب ہوتا تو بات الگ تھی

چھوڑو بات کو یہی ختم کرتے ہیں

تم۔فتوئ لگا دو گے مجھ پہ

اور یہ داغ پھر اترے گا نہیں

اور موت مجھ۔سے ملاقات میں تاخیر کر دے گی

پھر گھٹن ہو گی مجھے

رہنے دو میرے جسم سے روح مت کھینچو

مجھے سانس آنے دو

اسے پاس رہنے دو

 

Rimsha Riaz

**************

تم نے دیکھا ہو گا میری آنکھوں کو

ہاں میری آنکھیں دلکش نہیں دکھتی

پر۔تم نے غور کیا ہے کبھی

میں انکھ سے آنکھ نہیں ملاتی

کہ کوئی میری آنکھوں سے چرا نہ لے جائے

وہ شخص جسے میں سب سے چھپائے رکھتی ہوں

تمھیں کیونکر میری آنکھیں حسین لگیں گی

تم تو بھی ساحر کے سحر میں ہو

تمھیں وہ قیامت لگتی ہیں

مجھے میری آنکھیں عزیز ہیں

جانتی ہو کیوں ،؟

کیونکہ وہاں اس شخص کا بسیرا ہے

جو میرے خوابوں میں بس میرا ہے

ہاں تمھاری پسند ایک طرف

سنو میں اپنی آنکھوں کی مستی سنبھال رکھتی ہوں

کوئی چرا نہ لے میری سلطنت کو

اسی لیے میری آنکھیں جھیل سی نہیں ہیں

پر سنو میری آنکھیں مجھے بہت عزیز ہیں

کیوں کہ ان میں بس وہ بستا ہے

 

Rimsha Riaz

***********

 اے ادیب کچھ لکھ نہ مجھ پہ

میری داستاں ہی لکھ ڈال

کہیں کہیں جھلک دکھے اسی کی

سن کہ اسے ہی لکھ ڈال اپنے لفظوں میں

کچھ ایسا لکھ کہ وہ میری محبت پڑھ پائے

اے ادیب تو جانتا ہے نا روداد میری

میری بات پہنچا دے  اس شخص تک

اسے کہنا کہ میں گرفتار اذیت ہوں

میرے ساتھ تھوڑا سا ٹھہرو ذرا

کچھ پل کے لیے سہی

خود کو میری جگے پہ رکھ کہ دیکھو ناں

تم جان جاؤ گے کہ پھر

محبت پہ اختیار نہیں

میں روک نہ پاتی ہوں

تم تو عشق کے ع سے بھی ناواقف ہو

ادیب اسے بتاؤ نہ

اپنے جملوں سے اسے مناؤ ناں

دیکھو وہ مرض ہے میرا

مگر طبیب بھی وہی ہے

اسے کہو ناں میں اس کی انا سے  ڈرتی ہوں

وہ باتیں مجھ سے کرتا نہیں

تم اسے کہو نہ میں دیوانی بن جاؤں گی

گر وہ مجھے بچا لے

کچھ ایسا لکھو ناں

تم لکھو، اور یہ لڑکی محبت اپنی پا لے

 

Rimsha Riaz

****************

 لوگ سمجھتے ہیں میری جھکی نظر کو پاکیزگی میری

وہ کیا جانیں۔۔۔۔۔یہ تو ندامت ہے۔۔۔

یہ تو ندامت ہے اپنے ہاتھوں جنت گنوا دینے کی

 

اور اس سے بڑا نقصان کیا ہو سکتا ہے

کہتے ہیں موت سے بڑا کوئی غم نہیں

مگر جنت کو کھو دینے کا ملال اپنی جگہ

اور رہی بات ندامت کی تو

اس کا سروکار لوگوں سے کہاں

میں تو شرمندہ ہوں خود سے

اور اس ذات کے آگے

جس کے اگے بشر کی اوقات نہیں

لعن طعن برقرار رہی مجھ پہ

ندامت بھی رہی اک سینے میں

مگر خطا تو آدم سے بھی ہوئی

پھر میں تو ناچیز ہوں

تو کیا پرکھ رہے ہو مجھے

معیار میرا اتنا گرا تو نہیں ہے

میں کیوں دعوے کروں بے گناہی کے

تم سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے

کچھ سمجھتے ہیں مجھے پاکیزہ

نظر زمیں سے اٹھتی نہیں اب

یہ ملال ہے مجھے ،

انساں کو خوش کرتے رب کو خفا کر بیٹھی

پر جنت اب بھی فاصلے پہ ہے

ہاں  منتظر میری جنت

میری چاپ  سننے کی متظر

ہاں ابھی گنوائی نہیں ہے میں نے جنت

 

 

Rimsha Riaz

************

اور پھر عہد غلاماں اختتام پذیر ہوا

اک نئ صبح منتظر تھی ہماری

طلوع آفتاب اپنے ساتھ آزادی لایا

اور آزادی کی قدر تو صرف انھیں ہوا کرتی ہے

جو اسیر ہوں

کئی لاکھ قربانیوں کے بعد سہی

کڑھی مشکلات سے روبرو ہو کہ

آخر ہمیں اک ٹکرہ زمیں ملا

تب جا کر معلوم۔پڑا

لفظ آذادی ہوتا کیا ہے

نوجوان وطن فلسطین تم سے چھپا نہیں

یہ وطن تمہارا کبھی جھکا نہیں

یہ آزادی ہی تھی کہ تمہیں نام۔ملا

اب تم چاہو تو اس چمن میں رنگ بکھیر دو

تم۔چاہو تو غلامی کو چھوڑ دو

وقت اچکا ہے نوجوان وطن

اب تو جاگو ، سونا چھوڑ دو

یہ وطن خاکی تم سے کچھ مانگ رہا ہے

تمھارا فرض اول ہے اب تو

سرکسشی کے بتوں کو۔توڑ دو

وطن کی مٹی کو غیر کے ہاتھ بکنے نہ دو

یہ تمھارا وطن ہے، آزادی کا لبادہ اوڑھ لو

Happy independence day

Rimsha Riaz

************

Comments