عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جان بھی قربان ہے
کاش
!میری یہ التجا ہر امتی بہن تک پہنچ جاۓ!!
"دشمن نے ایک
بار پھر جرات کرلی-"بلا کے گلوگیر و شکستہ لہجے میں دادی جان گویا ہوئیں-
"دشمن نے جرات کی تو ہے مگر ان شاء اللہ
ہمارے مسلمان بھائی اسے چھٹی کا دودھ یاد دلادیں گے"- دادا جان نے پر یقین و مضبوط
لہجے میں کہا-
"صحیح کہہ
رہے ہیں ابو!ہمیشہ سے یہ تاریخ رہی ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور سے اب تک
....مسلمان عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود تو مرجاتا ہے مگر گستاخ کو جینے
نہیں دیتا-فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ سے لے کر عبداللہ شیشان تک یہی تاریخ رہی ہے
اور اب قیامت تک کے بھی تمام مجاہدوں کے نام زندہ رہیں گے-"
ابو
جان نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا-
"کاش ان خبیثوں کو پتا چل جاۓ جو آئے روز اپنے
اندر جلتی حسد کی آگ مٹانے کے لئے ناپاک گستاخیاں کرتے ہیں کہ سبزگنبد کے سائے میں
موجود آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی فرق نہیں پڑا ،ہاں ان کمینوں نے اپنی
بد بختی میں اضافہ ضرور کیا ہے .......خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
نہ کبھی تمھارے ان کارٹون بنانے سے گھٹی نہ اب گھٹے گی ،بلکہ ان شاء اللہ ان کی
شان میں اضافہ ہی ہوگا-کاش ان ظالموں کو کوئی جاکر یہ پیغام دے دے .....اللہ نے جب
فرمادیا و رفعنا لک ذکرک تو یہ خبیث گالیاں بک کر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان گھٹا سکیں گے ؟"
دادی
جان آنسوؤں کے گولے نگلتے ہوۓ ٹوٹےہوۓ لہجے میں بات کر رہی تھیں-ان کا چہرہ سخت سرخ ہوگیا
تھا-
"ڈوب مرنے
کا مقام ہے ہمارے لئے،ہم کیسے امتی ہیں .....شرمندگی کا مقام ہے ...حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو اس گستاخی سے غم ہوا نہ ہوا ہو ،ہماری بے فکری و بے حسی کا غم تو
ضرور ہوا ہوگا ...پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی دعاؤں و آہوں کی وجہ سے ہم
سکوں کی نیند سو سکتے ہیں ان کی گستاخی ہوئی ہے اور ہم بے فکر اپنی رنگین دنیا میں
مست ہیں ...اللہ سے معافی مانگو .....کثرت سے درود پاک پڑھو .....اپنے دوست احباب
سے بھی کہہ دو-ان شاء اللہ ہم آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو ستر ہزار درود پاک
کا نصاب مکمل کر کے تحفہ دیں گے .... "دادا
جان کی بات پر سب سر ہلانے لگے-ابھی فرانس والے واقعے کا غم تازہ تھا کھ انڈیا میں
ہونے والی گستاخی نے مزید نمک پاشی کردی-ہر مسلم گھرانہ اس وقت سوگوار و مغموم
ہوگا-
اللھم انا نجعلک فی نحورھم ....
و نعوذبک من شرورھم .....
اسی وقت امی جان بھاپ اڑتی
گرم ہنڈیا لیتی کچن سے آتی نظر آئیں-بچے بھاگ کر آئے-
"کیا پکایا
ہے امی ؟"
"جو نظر
آرہا ہے ......"
امی نے مسکرا کر کہا اور روٹیاں لینے کچن میں دبارہ چلی گئیں –
عصبه
نے آگے بڑھ کر ڈھکن اٹھایا -
"ارے واہ !کدو پکایا ہے ....
اللہ
بہو کو ہرا بھرا رکھے "دادی اماں نے خوش ہو کر بہو کو دعا دی -
"اللہ کا
شکر ہے کہ اس نے ہمارے گھرانے کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ کرنے کی توفیق
بخشی ....
" ابو جان یہ کہتے ہوۓ دسترخوان پر آ بیٹھے-
اوپر
سے تائی کے بچے بھی نیچے آکر کھانے میں شامل ہو گئے تھے -سب نے بہت شوق سے کدو سنت
تصور کرتے ہوۓ
کھایا اور کسی بچے نے چوں چراں نہیں کی -
"دادی !میں نے ایک کہانی لکھی ہے
-"سنت کے موافق انگلیاں چاٹتی اقصیٰ بولی-
"لڑکی!پڑھنا
لکھنا کچھ نہیں....بس کہانیاں لکھوالو اس سے....پڑھائی پر بھی توجہ دیا کرو-"
دادی منہ بنا کر بولیں-
"دادی جان
پہلے پوری بات تو سن لیں-"دادی نے فقط سر ہلادیا-
"آپ کو پتا ہے نا کہ جو انڈیا میں
گستاخی ہوئی ہے تومختلف ریلیاں نکل رہی ہیں اور لوگ احتجاج کر رہے ہے ...جلسے جلوس کر رہے ہیں مگر ہم گھریلو
بچیاں اور خواتین تو کسی ریلیوں وغیرہ میں نہیں نکل سکتیں ......"
"تو بیٹی !لڑکیاں گھروں میں ہی
سنتوں پر عمل اور درود پاک کی کثرت بڑھادیں-" دادی جان اس کی بات
کاٹ کر بولی-
"ارےدادی ی
ی .....میری پوری بات تو سن لیں ..."اقصیٰ بے چینی سے بولی-
"صرف دادی
...دادی ی ی نہیں-"ازکی نے مسکراتے ہوۓ ٹوکا -
اقصیٰ
اسے گھورتے ہوۓ
دوبارہ بولی -
"دادی جان
میں کہہ رہی تھی کہہ ہم لڑکیاں تو گھر سے نہیں نکل سکتیں مگر ہم قلمی جہاد ضرر کر
سکتی ہیں....قلم کے ذریے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں تو بلند کر سکتی
ہیں نا ...."
"ایں
.....وہ کیسے ؟"دادی اچھنبے سے بولیں -
"دادی
جان!ہم ہم ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اہمیت و فضیلت پر تحاریر لکھ کر
چھپوا سکتی ہیں ،یو ںہمارا نام بھی ان شاء اللہ اللہ پاک غلا مان مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وسلم کی فہرست میں شامل کر دیں گے اور ہم روز قیامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو چہرہ تو دکھاسکیں گی نا....."تیرہ سالہ اقصیٰ بولتی ہی چلی گئی-
سارے
گھر والے گنگ اس چھوٹی بچی تو تک رہے تھے -
"مجھے فخر
ہے اقصیٰ پر....شکر اللہ کا کہ میری تربیت اور دعائیں اپنی بیٹی کے حق میں رائیگاں
نہیں گئیں ...."امی جان فخر و خوشی سے بولیں -ان کی آنکھوں سے محبت کے چشمے
پھو ٹ رہے تھے -
"ہمیں بھی
سناؤ کہانی بیٹا-"دادا جان اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولے -
"میں نے یہ
تمثیلی کہانی غازی علم الدین شہید،عامرچیمہ شہید اور عبدللہ شیشان شہید پر لکھی ہے
-" اقصیٰ نے بستے سے اپنی
کاپی نکلتے ہوئے وضاحت کی -سارے گھر والے ہمہ تن گوش ہوگئے-
*******
وہ کمرے میں تنہا سر جھکائے بیٹھا
تھا....اپنی کوئی بھی پسندیدہ چیز اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی....آنکھوں سے آنسووں
کا ایک سیل رواں تھا .......غصے و افسوس سے اس کا دل کڑھ رہا تھا .....دشمنوں نے ایک
بار پھر غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چھلنی کر کے خود ہی اپنے پیر پر
کلہاڑی ماری تھی .....وہ ابھی جوان تھا....زندگی کے اہم ترین و رنگینیوں سے بھرپور
مرحلے میں قدم رکھا تھا ......یہ اسکا کڑا امتحان تھا....ایک جانب شہادت کی موت تھی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تو دوسری طرف دنیا کی فانی لذتیں تھیں...خاندان
و کنبہ....پیسہ....عزت دولت....ایک جوان دوشیزہ...مگر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
کے نام پر مر مٹنے سے زیادہ، عزت کی بات کیا ہوسکتی ہے ....بلاخر اس نے ایک اہم فیصلہ
کرلیا...وہ اٹھا ...نفل پڑھ کر دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں سرخرو ہونے کی
دعا مانگی ....وہ ایسا عظیم کام کر رہا تھا جس پر حضرت زید،خبیب بن عدی، اسود خبیری،اصیرم
بن ثابت رضی اللہ عنہم و رضو عنہ،نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا...
معمول
سے زیادہ نور اس کے چہرے پر چمک رہا تھا....وہ اٹھا،ماں کے گلے لگا...
"بیٹا اتنا
تیار ہو کر کہاں جارہے ہو..."مان اس کا چمکتا دمکتا سراپا دیکھ کر حیرت سے
بولی-
"امی خوش
نصیبی کی طرف....دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں..."
"کیا مطلب
؟"وہ تعجب سے بولی -
"امی جان تف ہے کہ ایک خبیث گستاخ ہمارے ہی
شہر میں موجود ہے اور ہم اسے سکوں کی نیند سونے دے رہے ہیں...امی جان میرے اس
امتحان میں کامیابی کی دعا کرنا اور میری شہادت کے بعد رونا مت...شہید کبھی نہیں
مرتے ہوتے...." بیٹے
کی ایمان افروز گفتگو نے اس بیوہ خاتون کا
حوصلہ بڑھایا....ذرا نہ روئی ...لرزش کرتے لہجے میں بولی-
"جا اللہ تیرا
حافظ ہو...میری خوش نصیبی ہوگی اگر میرا بیٹا حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر
قربان ہوجاۓ...."
خوشی سے اس کے قدم من من بھاری ہورہے تھے –
بھاگتے
ہوۓ وہ گلی عبور کر رہا
تھا....عشق و جنت کے شوق نے اسے ایک لمحے ٹھرنے نہ دیا .....اسے جسے ہی ملعون کا
دفتر نظر آیا وہ گارڈوں کو دھکے دیتا اندر گھس گیا .....دن کی روشنی تھی...بھرا
بازار تھا....لوگوں کی چہل پہل تھی مگر اسے کسی کا خوف نہ تھا،بے خوف و خطر وہ
اندر گھسا....سیکورٹی محتاط ہوگئی تھی ....وہ گستاخ سر جھکائے کوئی کام کر رہا
تھا،عاشق نے فورا پستول سے در پے چار فائر
کھول دیے ...اس خبیث کا ناپاک خوں زمین پر بہنے لگا تھا ....عاشق کی روح کو قررار
آگیا تھا....وہ یوں سینہ تان کر کھڑا تھا جسے بڑا کارنامہ انجام دیا ہو اور حقیقت
میں بھی اس سے بڑا کارنامہ ہو کیا سکتا ہے ....گارڈ خوفزدہ کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے ...اگلے ہی
لمحے پولیس کی گاڑی پہنچ گئی-وہ چہرے پر مسکان سجائے فخر کے ساتھ خون آلود ہاتھ
لہرا کر لوگوں کو خبردار کر رہا تھا کہ جو
بھی کوئی ایسی گستاخی کرتا ہے،اس کا یہی انجام ہوتا ہے ......خوفزدہ پولیس نے عاشق
کی کنپٹی کا نشانہ لے کر گولی ماری ....اگلے ہی لمحے وہ مبارک خوں میں نہایا اللہ
کے دربار میں حاضر ہو چکا تھا ....گھر میں بھی خوشی کا عالم تھا...شہیدوں کے گھر
والے روتے نہیں بلکہ فخر کرتے ہیں .....
قارئین !یہ کہانی غازی علم الدین ،عامر چیمہ اور عبدللہ شیشان شہید کی ہے
اورقیامت تک پیدا ہوانے والے تمام مجاہدوں کی جو چاہے خود ہی مرجائیں مگر ناپاک
وجود گستاخ کا برداشت نہیں کر سکتے......ان شاء اللہ انڈیا کے گستاخ کو بھی کیفر
دار پر پہنچایا جاۓ گا ....
*******
اقصیٰ
نے جذبات میں رندھی تحریر مکمل کی تو ہر آنکھ نم تھی -امی تو اپنی بیٹی پر صدقے
واری ہو رہی تھیں-ابو جان ،دادا دادی سبھی ہونہار بیٹی کو فخر سے دیکھ رہے تھے -امی
نے اٹھ کر اقصیٰ کی پیشانی کا بوسہ لیا
اور بال سہلاتے ہوۓ بولیں -
"اخلاص
ہو،نیت سچی ہو ،تڑپ ہو تو تحریر کے ٹوٹے
پھوٹے الفاظ نہیں دیکھے جاتے ...اخلاص دیکھا جاتا ہے .....اقصیٰ یہ تحریر کسی جریدے
میں اشاعت کے لئے بھیج دو...اللہ قبول کرے -"
دادا ابو باقی بچیوں کی طرف دیکھتے ہوئی بولے -
"دیکھو
تمھارے بھیا اور ابو تو احتجاج ا ورریلیوں
میں شمولیت اختیار کر کے اپنا نام تو لکھوالیں گے مگر تم بچیاں نہیں جا سکتیں-اقصیٰ
کی طرح عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبی تحریریں لکھو ،قلم کے ذریے اپنا
حصّہ لگاؤ اس مبارک کام میں -"
"دادا ابو
!اقصیٰ تو لکھتی رہتی ہے مگر ہمیں لکھنا نہیں آتا -"ازکی پریشانی سے بولی-
"بیٹا !آپ
کی امی نے کہا ہے نا کہ تحریر کی نا پختگی نہیں بلکہ نیت دیکھی جاتی ہے ...کچھ بھی
لکھ لو ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی آیت لکھ لو ،حدیث لکھ لو یا اس واقعے کے بعد جو آپ
کے دلی جذبات ہیں وہ کاغذ پر نقش کرلو ...مغرب کے بعد میرے پاس آنا....جس کی سب سے
اچھی تحریر ہوگی ،اسے انعام دوں گا -
"دادا جان اٹھتے ہوۓ بولے -
"ٹھیک ہے
....ہم پھر اوپرنہیں جارہیں -ادھر ہی لکھ لیں گی -"ہانیہ اور ثانیہ بھی اٹھ
گئیں- دادا جان نے
بچیوں کو مسکرا کر دیکھا اور کمرے کی طرف قدم بڑھادیے-
******
پانچوں
بچیاں کمرے میں آئیں تو اقصی کا ساڑھے چھے سالہ چھوٹا بھائی اخبار پڑھنے کی
کوشش کر رہا تھا- "کیا
خبر پڑھی ہے حماد نے ؟"اقصیٰ اسے پیار کرتے ہوۓ بولی -
"کسی کا نام لکھا ہے کہ وہ حکومت کا لیڈر بن گیا ہے -"
"تو آپ بھی
بن جاؤ-بنو گے ؟"ثانیہ نے اسے چھیڑا -
"میں کیوں بنوں ؟"حماد
خفگی سے بولا تو اقصیٰ کو ہنسی آگئی-
"اور کیا پڑھا ہے ؟اتنے بڑے اخبار میں سے صرف یہی نظر آیا ہے ؟"
"ایک آدمی نے مزدور کو قتل بھی کردیا
ہے -"
"آپ کسی کو قتل کرو گے ؟"آٹھ سالہ ثانیہ
نے معصومیت سے سوال کیا-
اقصیٰ
نے اسے گھوڑا-
"یہ کیا
بکواس سوال ہے ؟"
"ہاں ہاں
،میں بھی قتل کروں گا -"حماد کا جواب بھی حیرت انگیز تھا-اقصیٰ اور ازکی
بھونچکا رہ گئیں-
"میں اس
انڈیا والے آدمی کو قتل کروں گا جس نے میرےپیارے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا
ہے ....آپی نے بہت سارے لوگوں کے قصّے سنائے تھے نا کھانے کے بعد ....تو میں
انڈیا والے کو قتل کروں گا...امی ان دو بچوں (حضرت معاذ و حضرت معوذرضی اللہ
عنھما)کا واقعہ بار بار سناتی ہیں نا جنہوں نے گندے ابو جہل کو قتل کیا تھا اور
بازو کٹ گیا تھا....میں بھی قتل کروں گا
چاہے میرا بازو ہی کیوں نہ کٹ جاۓ..."ننھے حماد کے جذبات سن
کر چاروں بچیوں کے لبوں پر قفل لگ گیا-
کمرے
کے باہر سے گزرتے دادا جان کی آنکھیں جہاں بہیں،وہیں امی جان کو اپنی خوش قسمتی پر
رونا آگیا ....بچپن سے وہ بچوں کو ایسا ماحول دے رہی تھیں جس کی وجہ سے ان کے دلوں
میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوٹ کوٹ کر بھر گیا تھا،چھے سالہ حماد سے لے کر
تیرہ سالہ اقصی تک....
اپنے
بچوں کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا کریں....ان کو ایسا ماحول دیں جدھر ہر وقت قال اللہ و قال
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں بلند ہوتی رہیں....
*******
مغرب
کے بعد ساری بچیاں دادا جان کے کمرے میں موجود تھیں –
دادا
کے ہاتھ میں چار ننھے ننھے کاغذ موجود تھے-
"دادا جان !اقصیٰ نے تو بہت بڑی تحریر لکھی ہے مگر چونکہ ہمیں لکھنا نہیں
آتا اس لئے چھوٹی چھوٹی لکھی ہیں -"ہانیہ نے
وضاحت دی -
"پھر وہی بات...تمہاری سوئی وہیں اٹکی ہوئی
ہے...بھئی بیٹا کتنی بار بتایا ہے کہ اللہ عز و جل نیت دیکھتے ہیں ..."دادا
نے عینک لگاتے ہوۓ ہانیہ کو تنبیہ کی - سب سے پہلے انہوں نے عصبه کی
تحریر اٹھائی -
"پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!دشمن نے آپ کو برا بھلا کھا ہے اور ہم
اپنی دنیا میں مست،غفلت میں پڑے ہوۓ ہیں ....اے نبی اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم!ہم شرمندہ ہیں....خدا ر قیامت کے دن ہم گناہگاروں سے نظریں نہ پھیر لیجیے گا
...."عصبه کی انتہائی مختصر تحریر آنکھوں میں آنسو لانے کے لئے کافی تھی-
"میری کوئی تمنا نہیں ...صرف ایک تمنا ہے
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مر
مٹ جاؤں ...ان کے نام پر میرے جسم کے سو ٹکڑے بھی کر دیے جایئں تو مجھے قبول ہے
....
ہائے !کس قدر خوش نصیب تھے زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ ....کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نےغزوہ احد کے موقع پر اعلان کیا کہ کون مرد ہے جو ہمارے لیےاپنی
جان کا سودا کرے ،تو اس پر لبیک زیاد رضی اللہ عنہ نے کہا تھا....کس قدر خوش بختی
تھی ....حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے بھاگنے کے بعد فرمایا تھا کہ میرے محب دلفگار کو میرے قریب لاؤ اور چودہ زخم
لگے زیاد رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر اپنے رخسار
رکھ دیے تھے اور اسی حال میں جان دے دیتھی...کس
قدر خوبصورت موت تھی،کاش میں ان کی جگہ ہوتی...اگر مجھے سو جانیں بھی ملتیں تو یکے
بعد دیگرے یوں قربان کرتی رہتی ....جو لذت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں
جان دینے کی ہے ،وہ جنت میں بھی کہاں ....یا اللہ میری تمنا ہی میری دعا ہے
.... "بارہ سالہ ازکی کی تحریر نے بھی دادا جان کا دل چھلنی
کر دیا تھا-
"آج لگتا ہے ان بچیوں کا ارادہ مجھے
رلانے کا ہے -"وہ آنسو پونچھتے ہوۓ بڑبڑائےاور آٹھ سالہ ثانیہ کا ایک
سطر لکھا کاغذ اٹھایا -
"حرمت رسول
صلی الله علیہ وسلم کے خلاف مجھے آواز اٹھاۓ جانے پر اتنا غم ہے کہ خدا کی
قسم اتنا غم کبھی نہیں ہو ا-"
دادا جان نے حیرت سے معصوم،لا ابلی،ہر وقت کھیلوں
کی دنیا میں مست ثانیہ کو دیکھا...ظاہر کیا باطن کیا....یہ سب ان کی امیوں کی تربیت و محنت کا نتیجہ تھا جو اب بخوبی نظر آرہا تھا –آخری تحریر اب ہانیہ کی رہ گئی تھی-
"یا اللہ یہ مختصر سی تحریر قبول کریں اور میرا نام بھی حضور صلی اللہ
الیہ وسلم کے غلاموں میں لکھ دیں-قرآن پاک میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے دشمن کے بارے میں فرمایا:ان شا نئک ھو ا لا بتر...بیشک تیرا دشمن بے نام و
نشان رہے گا (مفہوم )-یہ آیت آج کے غمگین مسلمانوں کے لئے بڑی تسلی کا سامان ہے
....ان شاء اللہ انڈیا کا گستاخ بھی بے نام و نشان رہے گا -"
دادا جان نے عینک اتار کر شیشوں پر آئی
دھند کو صاف کیا اور بولے-
"سچی بات ہے بیٹا آپ سب کی تحریروں نے میرے احساسات و جذبات عجیب کر دیے -یقین کرو میں فیصلہ نہیں کر سکتا
کہ کس کو انعام دوں اور کس کو نہیں...اللہ پاک ہی آپ لوگوں کو اپنی شان کے مطابق
اجر دے گا ....اللہ پاک آپ سب بچیوں کا نام بھی غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں
شامل کر دے -"
یہ
کہہ کر دادا جان نے درود پاک کا وردشروع کر دیا -پانچوں بچیاں بھی آہستگی سے لب
ہلاتیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ رہی تھیں -تحریریں لکھنے کا مقصد
ان کا انعام کی لالچ تو نہ تھی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی -
******
آج
جب کہ ساری امت پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے تو میری یہ التجا ہے کہ خدارا کسی نہ کسی طریقے سے ناموس رسالت صلی
اللہ علیہ وسلم پر اپنا حصّہ بھی لگائیں....مرد حضرت سے کہوں گی کہ یہ جو ریلیاں نکل رہی ہیں ان میں وقت نکال کر
بھلے پانچ منٹ کے لئے ہی شرکت کر لیں کہ اللہ آپ کا نام بھی غلامان نبی صلی اللہ
علیہ وسلم میں لکھ دے -دنیا کے کام تو
ہوتے رہیں گے -اللہ کریم یہ نہیں دیکھتے کہ کتنی دیر کے لئے شرکت کی ،وہ یہ دیکھتے
ہیں کہ مرے بندے کی نیت کیا ہے -ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو چڑیا
بھی اپنی ننھی سی چونچ میں پانی پھر کر آگ میں ڈال رہی تھی کہ بجھ جاۓ،کسی نے کہا کہ بھلا دو تین قطروں
سے کیا آگ بجھے گی تو چڑیا نے جواب دیا تھا،بجھے نہ بجھے میں تو اس لئے یہ کر رہی
ہوں تاکہ میرا نام بھی لکھ لیا جاۓ،میرا بھی حصہ
لگ جاۓ-
گھروں میں مقیم خواتین،بہنوں اور
بچیوں سے میری التجا یہ ہے کہ آپ ریلیوں میں تو نکل نہیں سکتیں لہذا آپ اپنی سہیلیوں
اور حلقے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کریں اور قلم کے ذریے کونے کونے
میں موجود مسلمانوں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی مشک بار باتیں
پہنچائیں -لکھنا نہیں آتا تو کوئی بات نہیں،کچھ بھی لکھ کر بھیج دیں جریدوں میں،چھپے
نہ چھپے یہ آپ کا مسلہ نہیں...اللہ پاک تو نام لکھ لیں گے نا ان شاء اللہ
.....
اپنے
ننھے منے بچوں کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق بھر دیں تاکہ یہی بچے
بڑے ہو کر آپ کے لئے صدقه جاریہ بنیں-گستاخوں کی نفرت ان کے دل میں ڈالیں،صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی جاں نثاریکے واقعات سنا سنا کر .....
مختصر یہ کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں
جس سے جو ہوسکے کر گزرے،یہی علماء کا بھی پیغام ہے -
بس یہ
تحریر لکھنے کا بھی میرا یہی مقصد ہے -کاش !میرا یہ پیغام،میری یہ التجا تمام
مسلمان بہنوں تک پہنچ جاۓ-
و ما علینا الا البلاغ المبین
.....
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے
تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
-
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں
گے-
کہاں رفعت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی کہاں
تیری حقیقت ہے -
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
-
مذمت
کر رہا ہے تو شرافت کے مسیحا کی-
امانت
کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی -
اگر گستاخی ناموس احمد (صلی اللہ علیہ وسلم
)کر چکے ہو تم -
تو اپنی زندگی سے قبل بس مر چکے ہو تم -
میرا سامان جان و تن نثار ان کی محبت
پر-
میرے ماں باپ ہو جایئں فدا ان کی محبت
پر-
فداک ابی و امی یا رسول اللہ!
(ز-ن)
*************
Comments
Post a Comment