Chand satren ismail Hania Sheed ke naam article by Bint e Abdul Haq

چند سطریں اسماعیل ہانیہ شہید کے نام

الوداع اے اسماعیل ہانیہ شہید!....ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے.....!** (پیکر صدق و وفا، جبل استقامت، خطیب بے بدل، حضرت علامہ اسماعیل ہانیہ شہید رحمہ اللہ)

مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پاکؐ پر ایمان لائے پھر اس میں شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کیا یہ سچے اترنے والے ہیں۔ ( القرآن)                                 

 اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔۔ ( القرآن)

علامہ ہانیہ شہید رحمہ اللہ!**

 کچھ لکھنا سورج  کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے مگر میں تو چند سطریں ہانیہ شہید کے نام کر کے خریدران یوسف میں شامل ہونا چاہتی ہوں                                                                                                                        

وہ عظیم انسان کہ جس کا حوصلہ ہمالیہ کی طرح بلند، جس کا دل آب زم زم سے زیادہ پاک و صاف، جس کا ذہن چراغوں کی طرح نور افروز، رزم میں مجاہد میدان، آنکھوں میں ایمان کا نور، پیشانی پر تقوی کا نور، کمر میں صبر کی تلوار، روش پر تسلیم رضا کی عبا، ہاتھ میں استقامت کا عصا، پاؤں میں ثبات کے موزے، آواز مردانہ وجاہت و وقار کی گونجتی صدا، الفاظ کا جوہری، مطالب کا شناور... اس کی جدائی کا صدمہ اتنا بڑا ہے کہ غم میں سورج بھی سیاہی کی چادر اوڑھ لے... چاند اپنی روشنی کھودے تو بھی کم ہے.... محفل اجڑ گئی، بہار خزاں میں بدل گئی، ہر طرف سکوت طاری ہے، آنکھوں پر اختیار ختم ہوچکا، دل بے تاب ہوا، یوں دھڑکا جیسے قیامت آگئی، سسکیوں نے تسلسل اختیار کیا، آہوں نے بنجر دل میں ڈیرہ ڈال دیا، کرب اتنا شدید ہے کہ دل سنبھالے نہیں سنبھل رہا.... رخصتیاں تو اور بھی ہوتی ہیں مگر اس کی رخصتی کچھ ایسی تھی کہ گمان ہوا اپنے ساتھ اہل جہاں کے دل بھی ساتھ لے گئی، سب کے جگر شق کر گئی، لگتا ہے کہ اب عمر بھر کے لئے یہ کلیجہ کٹتا رہے گا..... ان للہ ما اخذ و لہ ما اعطی، و کل شئی عندہ باجل مسمی....!

 

علامہ ہانیہ شہید!**

 آپ تو کامیاب ہو کر اپنے رب کے پاس پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی مزدوری لینے چلے گئے.... لہو سے وضو کر کے اپنے رب کے دربار میں سرخرو ٹہرے- ”ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ“ کی فضیلت حاصل کر کے سکوں کی نیند سو گئے.... اے جنت جانے والے! جنت کا سفر مبارک ہو.... سرمدی راحتیں، ابدی نعمتیں مبارک ہوں! آپ کے لئے میں کیا لکھوں؟ آپ کی زندگی تو مثل شمس و قمر تھی.... آپ کی شہادت  نے بتادیا کہ آپ، اللہ رب العزت کے کتنے قریب تھے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کو کتنا پیار تھا- امام حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کئی سو سال پہلے کہ ہمارے جنازے بتائیں گے کہ کون حق پر تھا... **علامہ ہانیہ شہید!** آپ کے جنازے نے بھی بتادیا کہ آپ صحیح رستے پر تھے کہ غلط پر..... آپ کے لئے دعا کیا کریں؟ ہمیں تو اللہ سے گمان بلکہ یقین ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ کے مقدس خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی آپ کی مغفرت کردی گئی ہوگی- جنت کی خوشبو نے آپ کے قدم مبارک چومے ہوں گے - آپ تو ان شاء اللہ بخشے بخشائے جنت کی طرف کوچ کر گئے، دعا کی ضرورت ہے تو آپ کی جدائی سے چھلنی روحوں کو صبر اور حوصلے کی دعا کی ضرورت ہے..... جان تو سب کی جاتی ہے، سب کی ہی جانی ہے ’کل من علیھا فان‘ مگر جس بہادری و محبت سے آپ صدیق رضی اللہ عنہ پر نثار ہوئے، وہ قابل تحسین و قابل رشک ہے..... ہم آپ کو اس مقام پر فائز ہونے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں، خراج تحسین پیش کرتے ہیں - شہادت عظمت ہے، رفعت ہے، سعادت ہے، بلندی کامیابی کا مرانی ہے.....

 

علامہ ہانیہ شہید!** 

آپ کی یاد بہت آئے گی..... یہ زخم بھرنے والا نہیں ہیں...... آپ کی جدائی زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوگی.... آپ خود تو آرام کی نیند سو گئے مگر اپنے چاہنے والوں کی نیندیں غائب کرگئے..... آپ کا لہجہ، آپ کا انداز، آپ کا گرجنا، آپ کا للکارنا..... ہمیں بہت یاد آئے گا،آپ خود تو بہت ہی جلد اپنے رب سے جاملے، مگر مسلمانان عالم  کو یتیم کر گئے، آپ کا سایہ بھی تو فلسطین میں خاک و خوں میں تڑپتے مسلمانوں  کے لئے ایک شفیق باپ کا سا تھا، سب کو آپ بلکتا سسکتا روتا چھوڑ گئے: "تیرے بعد ہر لمحہ جاری ہیں آنکھوں سے آنسو - یہ وہ برسات ہے جس کا کوئی موسم نہیں ہوتا-'' اب کون گرجے گا تیرے انداز میں؟ اب کون للکارے گا تیرے انداز میں؟ اب ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے؟ آپ تو لاکھوں میں نہیں اربوں میں ایک تھے...... آپ کو آج شہید کہتے اور لکھتے ہوئے قلم جھجھک رہا ہے، جسم میں جھرجھری ہے، ہاتھوں پر لرزاں طاری ہے، یقین ہی نہیں ہورہا کہ آپ آج ہمارے درمیان نہیں.... مگر آہ! فیصلے کسی کے یقین کرنے نہ کرنے پر موقوف نہیں ہوا کرتے.... لیکن خیر یہ بات ضرور ہے کہ اپنے مشن و نظریے کے ذریعے آپ ہمارے درمیان، ہمارے ساتھ مرتے دم تک رہیں گے......

زمین کے تاروں سے ایک تارہ آسماں کے تاروں سے جاملا تیری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہ ہوا” آپ ہمیں سکھا گئے، پڑھا گئے، سمجھا گئے کہ  یوں بھی زندگیاں گزرتی ہیں،دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ تھلگ، اپنی دنیا کے لئے اس نے کچھ نہ کیا، کچھ نہ رکھا، بس اپنی آخرت سنوار کر، بدترین کافر یہود کے سینے پر بجلی بن کر گرج کر،ان کی نیندیں حرام کر کے،جہاد میں زندگی گزار کر،مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتے،یونہی مسکنت کی زندگی گزار گیا.....- ان شاء اللہ آج وہ 'فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر' ہوگا!! وہ چاہتا تو یہ سب چھوڑ کر اپنی دنیا بناتا،مگر نہیں نہیں...... ہانیہ کے لئے بھلا یہ کیسے ممکن تھا؟؟ اس کے سامنے تو قرآن تھا..... نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی زندگیاں تھیں..... 'سابقوا إلی مغفرۃ من ربکم وجنۃ' پر عمل کرتے ہوئے وہ زندگی گزار گیا..... آج جب گیا تو متاع الحیاۃ الدنیا نہیں بلکہ شہادت کی محبت کا درس چھوڑ کر گیا ہے..... وہ سچ میں اللہ کا عاشق تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کی محبت سچی تھی، تبھی تو یہ بات تھی کہ اس کی زندگی نے صحابہ کی زندگیوں کی یاد کرادی- مسکنت کی زندگی نے حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کرائی جنہوں نے فرمایا تھا کہ عائشہ! ہمیں دنیا سے کیا غرض! ہانیہ شہید کو بھی دنیا سے کیا غرض تھی؟! "نہ گلوں سے مجھ کو مطلب، نہ گلوں کے رنگ و بو سے کسی اور سمت کو ہے میری زندگی کا تارہ" اس کے اخلاص و سادگی نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد کرائی، شہادت کے شوق و جرأت نو عمر رضی اللہ عنہ کی یاد کرائی، استقامت و حوصلے نے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی یاد کرائی!...... جو عہد رب سے کیا تھا وہ اسے خوبصورتی سے نبھا گیا، "من المؤمنین رجال صدقو ما عاھدو اللہ علیہ" "جو عہد رب سے کیا تھا وہ نبھا گیا ہم اس کی فرقت میں رورہے ہیں وہ مسکراتا چلا گیا" **علامہ اسماعیل ہانیہ شہید!** اللہ کے جانباز شیر!! آپ کے پاکیزہ خون کا قطرہ قطرہ بہت قیمتی تھا مگر آہ! آہ! دشمن نے اسے بہت فالتو خیال کیا! خیر! آپ کو کیا غم، آپ کی روح تو جنتی تھی جو اپنا کام مکمل کر کے واپس اپنی اصلی جگہ جنت پہنچ گئی!! ارجعی الی ربک..... مگر آہ! آپ کے پیچھے رہ جانے والوں کا غم......  ”اے فرشتہ اجل کیا خوب تھی تیری پسند- پھول وہ چنا جو سارے گلشن کو ویران کر گیا“ آپ تو جنت الفردوس روانہ ہوگئے ان شاء اللہ.... روز قیامت آپ اس حال میں اٹھیں گے کہ آپ کے زخموں سے خون شہیداں ابلتا ہوگا جس کی مہک مشک کی سی ہوگی!(مفہوم حدیث مبارکہ) ع: "کل خون شہادت میں لتھڑا، یہ جسم انہیں دکھلائیں گے" آپ کا وہ مشک بار لہو جس کی بوند بوند میں اللہ رب العزت، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور دیگر چمنستان نبوت کے پھولوں کی محبت رچی بسی ہوئی تھی، وہ پاکیزہ خون اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز ضائع نہ جانے دے گا..... اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ...... آپ کے قاتلوں سے آپ کے معطر و منور خون کے قطرے قطرے کا حساب لیا جائے گا اور آپ کے خون کی بوند بوند رنگ لائے گی.... ان شاء اللہ تعالیٰ مگر آہ! یہ تلخ حقیقت کہ: "چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے!! 

)بنت عبدالحق (

Comments