"آج بہت
گرمی ہے.....!!!"
بچوں کو اسکول اورشوہر کو آفس بھیج کر ریحانہ
ابھی چائے بنانے ہی لگی تھی کہ اسے یاد آیا کہ بچوں کے کپڑے دھونے تھے-جلدی سے وہ
کپڑے ٹب میں جمع کرکے باہر آئی تو حبس و لو نےآدھے گھنٹے میں ہی اس کا
حال برا کردیا-جیسے تیسے کپڑے تار پر لٹکا
کر وہ اندر آئی اور پنکھا چلا کر صوفے پر لیٹ گئی- "اری بہو....طبیعت تو ٹھیک
ہے...."
برآمدے میں چہل قدمی کرتی ساس نے اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر پریشانی سے
پوچھا-
"بس اماں...ہفتے بھر کے بچوں کے کپڑے
جمع تھے ،سو سوچا آج دھولوں...دھوئے کیا....حبس نے برا حال کردیا...کس قدرگرمی ہے...."وہ
ڈوپٹے سے پسینہ پونچھتے ہوۓ
نقاہت بھری آواز میں بولی-
"ارے جھلی....کس احمق نے مشورہ دیا تھا
کہ اس قدر گرمی میں جا کر کپڑے دھو.....خدا نہ کرے کچھ ہوجاتا تو میں بوڑھی اکیلی
کیا کرتی..."انہوں نے ناراضی اور محبت سے اس کو تنبیہ کی-
"اب جا کراے -سی میں بیٹھو ،بیس منٹ سے پہلے تمہیں میں کام کرتا نہ دیکھوں.....آج
ہی کہتی ہوں ادریس کو کہ واشنگ مشین ٹھیک کرادے...." انہوں نے ہنوز غصے اور اپنائیت سے
کہا-
"اماں...ابھی
آرام کرنے لگوں تو کام کون کرے گا.....ابھی میں نے سالن بھی چڑھانا ہے..."اسکےلہجےمیں بیزاری اورٹینشن کی جھلک تھی-
"ہوتے رہیں گے کام...کام کبھی ختم نہیں
ہوتے....صحت کی بھی فکر کیا کرو..."وہ یہ کہہ کر چلی گئیں جبکہ اس قدر اچھی
ساس پر ریحانہ کا دل شکر کے جذبات سے بھر گیا-
اس
نے اے-سی آن کیا اور بیڈ پر لیٹ گئی....تھوڑی دیر بعد ہی گھنٹی بجی –
ریحانہ نے دروازہ کھولا تو ماسی پسینے
میں شرابور چلی آ رہی تھی-
"باجی....مجھے چھٹیاں دے دو...گرمی نے
حال برا کردیا ہے....کل تو ہمارے محلے کی تو کام کرنے والیاں بےہوش ہو گئیں حبس
سے....اور خود میری بھابی کی کل گرمی سے طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ ناک سے خون رک ہی
نہیں رہا...ہسپتال جا کر کچھ حالت سنبھلی...."وہ آتے ہی پھٹ پڑی-
"گرمی تو واقعی ہے مگر اس کایہ مطلب تو نہیں نا کہ تمہیں
چھٹیاں دےدوں...ہاں اتنا کر سکتی ہوں کہ تمہیں ٹیکسی کے پیسے دےدوں...یوں تم پیدل
آنے اور لو کی مشقت سے بچ جاؤ گی..."ریحانہ کچھ سوچتے ہوۓ
بولی-
"ورنہ کل کلاں کو مجھے بھی کچھ ہوجاۓ
گا..."وہ چادر اتار کر میزپر
پھینکتے ہوۓ بے زاری سے بولی-
"آج لے جانا ٹیکسی کے پیسے ،اب پنکھے کے نیچے بیٹھ کر پسینہ خشک
کرو...پانی شانی پیو پھر کام شروع کردینا-"ریحانہ نے اس پر ترس کھاتے ہوئے
پانی دیا-
گرمی روز ہی ہوتی تھی مگر آج کچھ زیادہ
ہی گرم دن تھا....
*****
"ہائے.....بہت گرمی ہے
ماما...."دونوں بچے پسینے میں شرابور گھر میں داخل ہوئے اور اپنے بستے قالین
پر ہی پھینک دیے-
"ماما....آپ بابا سے کہیں کہ ہمیں خود لینے
آیا کریں-وین میں ہمارا دھوپ سے حال برا ہوجاتا ہے-"آٹھ سالہ ماہا ،رونی شکل بنا کر بولی-
"اچھا بیٹا میں آپ کے بابا سے بات کروں گی
-اب آپ دونوں کمرے میں آجاؤ ،میں نے اے-سی پہلے سے چلا دیا تھا تاکہ کمرہ ٹھنڈا ہوجاۓ-مجھے
پتا ہے کہ کتنی گرمی ہے باہر ...."
وہ مسکرا کر ماہا اور نو سالہ عباد کو
پیار کرتے ہوئے بولی تو دونوں بھاگ کر کمرے میں آگئے-ریحانہ نے ان کو ٹھنڈا
برف جوس دیا تب جا کر ان کو ٹھنڈک ملی-
"آپ لوگ نہادھو کرکپڑے بدلو اور کھانےلئے آجاؤ-"
"جی ماما...میں تو سر بھی دھوؤں گی...پسینے
نے میرے بالوں کو بھی تر کردیا ہے ...سر بھی گرم ہوجاتا ہے..."وہ منہ بنا کر اپنی
پونی کھولتے ہوئے بولی اور بیت الخلا کی طرف بڑھ گئی-
ریحانہ کھانے کی تیاری کرنے کچن میں
آگئی-
*****
"ماما !....مجھے ایک سوال سمجھائیں گی....؟"عباد نے ریحانہ سےمعصومیت سے پوچھا- "جی
ضرور بیٹا...مگر پہلے میں آپ کے بابا کے لئے شربت تو بنالوں.....وہ آتے ہی
ہونگے-" شربت
کو فرج میں ٹھنڈا ہونے رکھنے کے بعد وہ عباد کو ہوم ورک کرانے لگی-
تھوڑی دیر
بعد گاڑی کا ہارن سنائی دیا-بچے بھاگ کر دروازے پر آگئے -ریحانہ بھی ان کے پیچھے
مسکراتے ہوئی آئی-روز کی طرح بیوی اور بچے ان کے استقبال کے لئے موجود تھے-ادریس
نے مسکرا کر بیوی کو سلام کیا اور بچوں کو پیار کر کے اندر آگیا-سامنےہی دادی بیٹھی تھیں،ماں کو سلام کرکےوہ صوفےپربیٹھ
گیا- "آپ کے تو
سارے کپڑے پسینے سے تر ہیں....کیا گاڑی میں اے -سی نہیں چلایا تھا....؟ " ریحانہ
ان کو شربت کا گلاس تھماتے ہوئے بولی-
"چلایا تو تھا مگر جب جامن لینے گاری سے
اترا تو یہ حال ہوگیا-گرمی بھی توغضب
کی پڑرہی ہےنا...."
"اور جامن کہاں ہیں..."
"نہیں لایا....فضول میں بحث کی ....پسینہ بھی آگیا...جاہل لوگ
دو سو کا ڈبہ بیچ رہے ہیں سائکلوں پر اور دکان سے ایک سو بیس کا ڈبہ مل جاتا ہے
....زیادہ پر لگ گئےہیں ان کو "ادریس
غصے سے بولے-
"چلیں چھوڑیں....میں کھانا لگا رہی ہوں ،آپ نہا کر آجائیں-"
*******
کھانالگ چکا تھا-روز کی
طرح آج بھی دادی اماں جوڑوں کے درد کی وجہ سے صوفے پر بیٹھ کر کھا رہی تھیں -
"بابا !...."ماہا نے معصومیت سے کہا-
"جی میری جان..."
"بابا!آج پتا ہے ہماری کلاس فیلو ہیٹ کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی....ٹیچرز
نے اسے گھر بھیج دیا....ہماری چھٹیاں کب ہونگی...اتنی گرمی ہے ...."
"جلد ہونگی بیٹا...ویسے بھی اس موسم میں بچوں کو گھر سے نکلنا
خطرناک ہے...."
"اس بار کی
گرمی نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں...."ریحانہ نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا-
"ہاں
بلکل....ملتان میں جیسی گرمی ہوتی تھی....ویسی گرمی ہم اسلام آباد میں محسوس کر
رہے ہیں....سب یہی کہہ رہے ہیں..."ادریس نے تائید میں سر ہلایا-
"ہر وقت
گرمی گرمی کہتے رہتے ہو ....مگر ایک بات سوچی آپ
لوگوں نے...." دادی کی
پر سوچ آواز نے سب کو ان کی طرف متوجہ کردیا-
"جی امی....کیا
بات....؟"
"ان لوگوں کی تکلیف جن کےپاس اے -سی پنکھا نہیں....بیٹا کیا ان مزدوروں کا
دکھ درد محسوس کیا کبھی جو سارا دن رزق کے لئے دھوپ میں محنت کرتے ہیں....کدالیں
تھامے....سائکلوں پر چیزیں بیچتے.....کتنی محنت کرتے ہیں ....وہ بھی تو ہماری طرح
کے انسان ہیں نا...ان کو بھی تو گرمی لگتی ہے....ان گھروں کا سوچو ...جہاں ...بچوں کے لئے پنکھا نہیں...ماں باپ بے بس ہیں .....
تم لوگوں کو گرمی لگے تو شربت سے پیاس بجھا
لیتے ہو ....اے-سی میں بیٹھ کرلمحوں
میں ٹھنڈک حاصل کرلیتے ہو....ان مزدوروں اور غریبوں جن کے پاس کوئی پنکھا وغیرہ نہیں
....ان کے لئے دعا کرنا اور مدد کرنا ہمارا فرض بنتا ہے نا....یہ جو جگہ جگہ دھوپ
میں سائکلوں پرپھل بیچ رہے ہوتے ہیں...وہ ذرا سے پیسے زیادہ بتائیں تو ہم چلتے
بنتے ہیں ....غصّہ کرتے ہیں...باتیں
سنا دیتے ہیں ...
بیٹا!اے-سی والی گاڑی میں بیٹھ کر کبھی بھی ہمیں ان کا احساس نہیں
ہوسکتا مگر ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں توپھر ندامت ہو کہ ان کو جھڑک کر ہم کتنا غلط
کرتے ہیں ....ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ کم از کم وہ اس دھوپ کی اذیت سے تو بچ جایئں ....ان
سے چیز خرید لینی چاہیے.... "دادی
جان خاموش ہوئیں تو ان کا اشارہ سمجھ کر ادریس کے ذہن میں وہ جامن والا گھوم گیا-اس
نے شرمندگی سے سر جھکا لیا-دادی کی آواز پھر ابھری-
"اور
دوسری بات کہ ناشکری سے بچو....بار بار گرمی گرمی کی تکرار کرنا ناشکری ہے....جب
آفس اسکول میں اےسی،گاڑی و گھر میں اےسی ...تو کس
بات کا رونا اور کیسی ناشکری ....گرمی تو ان مزدوروں کے لئے ہے جو سارے دن
دھوپ تلے دن گزار دیتے ہیں.....مختصر یہ کہ ناشکری سے بچو اور ان غریبوں کی مدد کیا
کرو ...."
دادی اماں جب خاموش ہوئیں تو ریحانہ اور خاص طور پر ادریس کی سوچ کا رخ بدل
چکا تھا....انہوں نے بلکل درست نشان دہی کی تھی....تبھی دادی دوبارہ گویا ہوئیں-
"اور بیٹا جب گرمی زیادہ محسوس ہو....زیادہ گرم دن ہو تو ایک کام اورکیا
کرو......گرمی کی دعا پڑھ لیا کرو...ماہا
اور عباد !آپ بھی...."
"کیا.!!!گرمی کی دعا....گرمی کی بھی دعا ہوتی ہے!!!...."
بڑوں کی حیرت انگیز آواز میں
بچوں کی آواز بھی شامل تھی-
"ہاں...گرمی کی بھی دعا ہے....اب میرے ساتھ دہراؤ اور یاد بھی
کرلو-اپنے دوست احباب کو بھی یاد کرادو....دیکھو اگر ہم ہزار بار بھی کہیں کہ
بہت گرمی ہے تو ہمارے کہنے سے موسم ٹھنڈا نہیں ہو جاۓگا،اس کے بجائے
دعا پڑھ کر نیکیاں حاصل کر لینی چاہیئں....دعا
یہ ہے:
"لَا
إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي
مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ-"
جب وہ سب دھرا
چکے تو دادی نے وضاحت کی -
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب بندہ سخت گرمی کے موقع
پر یہ دعا کہتا ہے تو خدائے پاک فرماتے ہیں کہ بندے نے پناہ مانگی....میں نے پناہ
دی-اور اس کا ترجمہ بھی سن لو....
اللہ کے سوا کوئی
معبود نہیں...آج کس قدر گرمی ہے...اے اللہ مجھے جہنم کی گرمی سے پناہ دیجیے....(بہیقی)"
"سبحان اللہ....یعنی ہم اللہ پاک کا نعمتوں پر شکر ادا کر کے ،غریب لوگوں کی مدد کر کے اور یہ دعا پڑھ کر گرمی کے
موقع کو بھی قیمتی بنا سکتے ہیں...گرمی گرمی کی رٹ کرنے کے بجائے بندہ یہ دعا پڑھ
لے...."ادریس نے پرسوچ لہجے میں
کہا-
"دادی اماں !ہم بھی اپنے دوستوں کو یہ
دعا یاد کرائیں گے اور آئندہ گرمی گرمی نہیں کہیں گے ....اس کے بجائے اللہ کا شکر
ادا کریں گے اور دعا پڑھ لیں گے ...." ماہا اور عباد نے پر عزم لہجے میں
کہا تو دادی دونوں بچوں کو دعائیں دینے لگیں،جبکہ ادریس اور ریحانہ محبت اور شکر کی
نگاہوں سے اپنے سعادت مند بچوں کو دیکھنے لگے....
*****
(بنت عبدلحق )
Comments
Post a Comment