تحریر
: قمر النساء قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.............................
توہین مذہب،صحافیوں اور سیاست دانوں کے بیان اور حقائق
توہین مذہب، پروپیگنڈہ
یا حقیقت ثبوت کیا کہتے ہیں۔
سوات میں جلنے والا
شخص زندہ تھا یا مردہ۔
لا الہ الا اللہ
کے لئے وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں گزشتہ دنوں،مذہب کے حوالے سے کچھ معاملات
پر کافی گرما گرمی رہی۔جس میں ہر کس و ناکس نے حصہ ڈالا۔لیکن انتہائی افسوس ناک پہلو
یہ ہے کہ،نیشنل ٹی وی پر بیٹھے اینکر،شاہزیب خانزادہ سے لے کر سینئر صحافی مجیب الرحمٰن
شامی اور معزز قومی اسمبلی، کے فلور پر کھڑے
فیصل سبزواری سے لے کر سینئر سیاست دان اور وزیر دفاع خواجہ آصف تک نے ایسے بیانات
دئیے،جو نہ صرف آئین اور قانون کے خلاف تھے،بلکہ حقائق اور شواہد سے ہٹ کر ایسے بیانات
تھے جن کی کسی ذمہ دار عہدے پر فائز شخص سے توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔دلچسپ امر یہ
ہے کہ مغرب کی خوشنودی،حاصل کرنے اور پاکستانی
قوم کے سامنے حقائق مسخ کرنے کی کوشش میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ سال 2024 میں بات
کر رہے ہیں،جہاں پر تمام تر حقائق اور ثبوت کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں۔
شاہزیب خانزادہ کا
کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تازہ مثال یہ ہے کہ(قربانی کے حوالے سے)قادیانیوں
کو مشتعل اور نفرت آمیز عوام سے بچانے کی بجائے،پولیس خود ان کے خلاف کاروائی میں مصروف
رہی۔
خانزادہ
صاحب کو واضح کرنا چاہئے کہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پر امن
طریقے سے درخواست دینا انتہا پسندی ہے،یا پولیس کا آئین کی خلاف ورزی کرنے پر کاروائی
کرنا آپ کی نظر میں انتہا پسندی ہے۔کیا آئین پاکستان میں امتناع قادیانیت ایکٹ میں
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298cاور 298b
موجود نہیں ہے۔یا کسی قادیانی کو شعائر اسلام کو استعمال
کرنے پر 3 سال تک قید یا جرمانہ کیا جا سکتا ہے،کی سزا موجود نہیں ہے۔کیا قادیانیوں
کے حلف نامے موجود نہیں ہیں کہ قادیانی قربانی نہیں کریں گے۔اجتماعی نماز عید کے لئے
نہیں جائیں گے۔قادیانیوں سے زیادہ قادیانیوں کی ہمدردی چہ معنی دارد۔اگر یہاں مغرب
کی دی ہوئی انتہا پسندی کی تعریف سے ہٹ کر دیکھا جائے۔تو دراصل پر امن درخواست گزار
پر(جنہوں نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے آئین پاکستان پر عملدرآمد کروانے کی درخواست
دی) مشتعل اور نفرت امیز کا لیبل لگانا حقائق مسخ کرنا اور آئین پاکستان پر اعتراض
کرنا انتہا پسندی ہے۔
شامی صاحب نے فرمایا
کہ انہیں ربوہ سے( قادیانیوں کے ترجمان)عامر محمود کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔کہ ان
پر مقدمے ہو رہے ہیں۔لیکن شامی صاحب کو عامر محمود صاحب یہ تو نہیں بتا سکتے تھے کہ
قادیانیوں پر یہ مقدمے آئین کے مطابق ہو رہے ہیں۔یہ تو انہیں خود سمجھنا چاہئے تھا۔
پاکستانی میڈیا ہو،یا
قومی اسمبلی کا فلور، یہاں اہل غزہ کے بچے ذبح ہونے پر سب خاموش ہیں لیکن قادیانیوں
کے بکرے ذبح نہ ہونے پر شور برپا ہے۔یہاں توہین مذہب پر فورا قرار داد آتی ہے،لمہوں
میں منظور ہوتی ہے۔اور امریکہ بھی حمایت کا
اعلان کر دیتا ہے۔لیکن غزہ میں سسکتی ہوئی انسانیت اور تاریخ کے بد ترین ظلم پر آج تک ایک قرار داد تک نہیں آ
سکی کیونکہ امریکہ ناراض ہوتا ہے۔
یہ
ملک لاکھوں قربانیوں کے بعد صرف مسلمان اور کافر کے نظریاتی فرق کی وجہ سے حاصل کیا
گیا تھا، اگر منکر ختم نبوت،ہندو اور مسلمان سب قربانی کر سکتے، تو الگ ملک کی ضرورت
نہیں تھی۔جیسا کہ محمد علی جناح نے فرمایا تھا۔کہ گائے کو ذبح کرنے والے اور گائے کا
پیشاب پینے والے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔اہل اقتدار کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہ یہ ملک
دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔
اگر بات کی جائے سوات واقعہ،کی تو یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں
ہے۔کہ کسی شخص کو اگ لگانے یا ماورائے عدالت اقدام قتل،کی اسلام میں ہر گز اجازت نہیں
ہے۔نہ ہی مذہب سے ذرا سا آشنا شخص بھی یہ کرتا ہے۔۔بلکہ اس طرح کے گزشتہ تمام واقعات
میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ مذہبی شخصیات نے ان مسائل کو ہمیشہ خوش اسلوبی سے حل کیا
ہے۔ تو پھر بھی آخر کیا وجہ ہے،کہ حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے،ایسے معاملات کو، مذہبی
انتہاپسندی کا نام دے دیا جاتا ہے۔
جیسا کہ فیصل سبزواری
نے فرمایا کہ نام نہاد الزام لگایا گیا ہے۔خواجہ آصف صاحب کا کہنا تھا۔آج تک جو لوگ
قتل ہوئے ہیں،ان کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے خدا نخواستہ بلاسفیمی کمٹ
کی تھی"۔یعنی خواجہ آصف بھی کہہ رہے،
کہ یہ صرف ایک الزام تھا۔کئی ثبوتوں اور گواہوں کے ہوتے ہوئے، یہ سب کچھ کہنا کافی
مضحکہ خیز اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی۔جس سے نہ صرف مسلم امہ کو تکلیف پہنچی
بلکہ دوسروں پر پاکستان کو بد نام کرنے کا الزام لگانے والے حقائق مسخ کر کے خود ہی
یہ کام بخوبی نبھاتے رہے۔
دنیا
میں کہیں کسی قانون میں بھی بغیر ثبوت اور دلیل کے کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہے۔
حقائق کا جائزہ لیں۔تو
سوات کے علاقہ اے سی سکندر خان نے جلے ہوئے قرآنی اوراق دیکھاتے ہوئے کہا کہ یہ زندہ ثبوت ہے کہ اس شخص نے قرانی اوراق کو جلایا تھا،یہ
ان کے کمرے کے لیٹرین پائپ سے ہم نے کولیکٹ کیا جبکہ باقی شواھد پولیس اکٹھے کر چکی
ہے۔یہ بات کنفرم ہے کہ اس شخص نے قرانی اوراق جلایئں ہیں۔(ان کا ویڈیو بیان موجود ہے)
جے آئی ٹی کی 9 رکنی کمیٹی
کے سربراہ اور ایس پی انویسٹیگیشن بادشاہ خان کا ویڈیو بیان موجود ہے۔کہ مقتول توہین
کا مرتکب ہو چکا ہے۔ہوٹل مالک احمد علی کا کہنا تھا،ملزم نے اوراق جلائیں ہیں کچھ کھڑکی
سے باہر پھینکے ہیں۔۔کچھ پائپ میں ڈالیں ہیں۔اس کے علاوہ علاقہ مکینوں میں سابقہ ناظم
اور دیگر کئی افراد کی اثباتی گواہیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔اور(نعوذبااللہ) جلے اوراق
بھی موجود ہیں۔ جن میں ادھے جلےایک ورق پر یا ایہاالنبی کے الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں۔
ہر ایسے کیس کے
بعد ایک واویلا ہوتا ہے۔مذہب کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔اگر حقائق دیکھے جاتے
اور اصل وجوہات پر کام ہوتا تو آئے روز ایسے سانحے جنم نہ لیتے۔
ثبوت اور گواہ موجود
ہیں کہ گستاخ کو سوات بازار سے پکڑ کر عوام
نے خود پولیس کے حوالے کیا۔جب پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی، تو کچھ لوگ
تھانے کے باہر جمع ہو رہے تھے،ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے، پولیس نے
صورت حال کو مس ہینڈل کیا،اور لوگوں پر سیدھے فائر کئے۔کم و بیش 24 افراد زخمی ہوئے
جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔اس صورت حال میں عوام نے مشتعل ہو کر قانون کو اپنے ہاتھ
میں لیا،اور گستاخ جس کے سر پر گولی لگی تھی اور وہ پہلے ہی تھانے کے اندر ہی مر چکا
تھا،کو باہر گھسیٹ کر آگ لگا دی۔سوال یہ ہے کہ
پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کیوں کی۔اتنے حساس ملزم کو مدین تھانے
میں کیوں رکھا۔پر امن لوگوں پر فائرنگ کر کے تشدد کی دعوت کیوں دی۔
وہاں
کی عوام کا کہنا یہ بھی ہے،کچھ لوگ جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا ہم انہیں نہیں جانتے
وہ باہر کے تھے۔سوال یہ ہے وہ کون تھے۔کہاں سے آئے تھے۔وفاقی ادارے کی رپورٹ میں یہ
کیوں کہا گیا،کہ پولیس نے ملزم کو ہوٹل سے تھانے منتقل کیا،اس حقیقت کو کیوں چھپایا
جا رہا ہے کہ ملزم کو سوات بازار سے پکڑ کر عوام نے پولیس کے حوالے کیا۔
سوال یہ بھی ہےکہ
اگر لوگوں نے اسے خود مارنا ہوتا تو اسے پہلے پولیس کے حوالے کیوں کرتے۔سوال یہ بھی
ہے کہ یہ بات کیوں چھپائی گئی کہ وہ شخص جسے جلایا گیا،پہلے ہی سر پر گولی لگنے سے
مر چکا تھا۔سوال یہ بھی ہے۔موضوع گفتگو صرف قتل ہی کیوں ہے۔ قتل کیوں کیا گیا، کیوں
نہیں ہے۔مقتول کا جرم کتنا سنگین تھا، اس کی
سزا آئین میں کیا ہے۔ان تمام تر حقائق پر بات کرنے کی بجائے الٹا یہ تاثر دیا جا رہا
ہے کہ گستاخی ہوئی ہی نہیں ہے۔گستاخی کیوں کی۔کس کی ایما پر کی۔قتل آگ سے ہوا یا گولی
سے یہ سب چیزیں کیوں پس پشت ڈال دی گئی ہیں۔اتنے جھوٹ صرف ایک سچ کو چھپانے کی کوشش
میں کیوں بولے جا رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر ہر الزام مذہب کے سر ڈالنے کی کوشش کیوں کی
جا رہی ہے۔
کیا حکومت،عدالتیں،
اور مقننہ نہیں جانتی کہ ان سازشوں کے تانے بانے کہاں پر بنے جا رہے ہیں۔تمام ادارے
ملک کو آئین کے مطابق چلائیں، اہل مغرب کے قوانین اور دستور پر نہیں جو پیتے ہیں لہو
اور دیتے ہیں تعلیم مساوات۔جن کے قانون عافیہ صدیقی کے لئے اور ہیں،ریمنڈ ڈیوس کے لئے
اور، انڈیا کے لئے اور ہیں اور پاکستان کے لئے کچھ اور،ان صیہونی طاقتوں کی منشاء پر
آج تک آٹھ ہزار گستاخی کے ملزموں میں سے کسی ایک کو بھی اعلی عدالتوں سے سزا نہیں ملی۔واحد
آسیہ ملعونہ جس کو گستاخی پر پھانسی کی سزا سنائی گئی، مگر اسے بھی انہیں کی ایما پر
مکمل تحفظ دے کر باہر پہنچا دیا گیا۔
عدالتیں جب سزا نہ
دیں تو لوگ فیصلے اپنے ہاتھ میں لے ہی لیتے ہیں اس کے باوجود علماء کرام اور دینی طبقہ
ہمیشہ لوگوں کو ماورائے عدالت اقدام سے منع کرتا ہے۔نہ ہی اسلام میں کسی بھی قسم کے
مجرم کو اگ میں جلائے جانے کی گنجائش ہے۔پھر بھی ایسے تمام واقعات کو مذہب کے خلاف
پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرنا کیوں معمول بن گیا ہے۔حکومتی مشینری بشمول میڈیا کو
چاہئے کہ حقائق مسخ کر کے آئی سی سی پی آر معاہدے(جس کی رو سے ہماری حکومت خلاف آئین
یہ معاہدہ کر چکی ہے،کہ پاکستان کے تمام قوانین کو اقوامِ متحدہ کے کنویننشنز (سیکولر
قوانین) کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا۔)کی راہ ہموار کرنے کی بجائے جرم کی وجوہات کا
سد باب کریں۔اور مجرموں کو آئین کے مطابق سزا دیں۔پاکستان پہلے ہی داخلی و خارجی بہت
سے مسائل کے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔خدا را مغربی ایجنٹوں پر چلنے کی کوشش میں اس ملک
کو تباہ نہ کریں۔
اے
چشم اشک بار ذرا دیکھ تو سہی یہ
جو
گھر جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
Comments
Post a Comment