آرٹیکل
:
مُحبت اور عزت
از قلم ایمان بابر
مُحبت
کے کئی نام کئی مطلب ہیں ۔ ہوں یہ بول سکتے ہیں کہ محبت ایک ایسی چیز ہے ، ایک ایسا
جذبہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا ہی رہتا ہے۔
کسی
کے لیے ایک خوبصورت احساس بن کر ، کسی کے لیے ڈراونا خواب بن کر تو کسی کے لیے یہ محض
ایک کتابی بات ہے جو کتاب میں ہی اچھی لگتی ہے ۔
ہمارے
معاشرے میں اس کو کئی رنگ دے رکھیں ہیں ۔ محبت کو آج کل کی نسل نے ایک غلاظت کا ڈھیر
بنا رکھا ہے۔
مُحبت
کے نام پر عزتوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے ، محبت کے نام پر زنا جیسے گناہوں کی بنیاد
رکھی جانے لگی ۔
میرے
کہنے کا مطلب ہے کہ اب آپ کو محبت بس ایک کتابی بات ہی لگے گی ۔
مگر
ذرا روکیں ! کیا محبت بس دو لوگوں کی آپس میں پسندیدگی کا ہی نام ہے ؟
ہرگز
نہیں محبت کی اور بھی بہت شکلیں ہیں مگر ہم سب ہے اِس کو اسی تک محدود کر چھوڑا ہے۔
مُحبت
ایک انسان سے ہو، ایک کتاب سے ہو ، ایک رشتے سے ہو یا پھر خود سے ہو ۔مُحبت ہر چیز
کے لیے اپنا الگ الگ کردار ادا کرتی ہے ۔
میرے
نزدیک محبت کا مطلب بہت سادہ ہے ۔ آپ لوگوں کو اگر میں بولوں کے محبت کا کنسیپٹ اسلام
کی طرف سے آرہا ہے تو آپ کیا یقین کریں گے ؟
شاید
ہاں یا پھر شاید نہیں۔
مُحبت
کی مثال قرآن مجید ہے ۔ اللہ کی اُس کے رسول سے محبت کی مثال ۔
اور
قرآن مجید ہم تک آنا اور اس کی حفاظت خود اُس ذات کی کرنا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی محبت ہے اُن کی اُمت سے ۔کیا سمجھے؟
مُحبت
ایک سے ہو یا پوری انسانیت سے محبت محبت ہوتی ہے ۔ محبت کو دو لوگوں تک محدود رکھنا
یہ ہمارا اپنا مسلہ ہے ۔
اللہ
کو ہم سے محبت ہے یہ بات ہم سب کو معلوم ہے اُس کو محبت ہے اس لیے وہ ہمارے عیب چُھپا
دیتا ہے ۔
اللہ
کو ہم سے محبت ہے اُس لیے وہ ہمیں معاف کر دیتا ہے ۔ اور تو اور یہ اللہ ہے کی تو محبت
ہے کہ وہ ہمیں کچھ بھی ہی جائے ہر حالات میں تھام لیتا ہے۔
مجھے
لفظ محبت سے محبت گا کیونکہ یہ بہت پاک ہے ۔ اگر اس کی گہرائی میں جائیں تو انسانوں
کی حقیقت کھول جائے ۔
میں
زیادہ نہیں بولوں گی ہاں اگر آپ کو محبت کرنی ہے تو پہلے اللہ سے کریں پھر اُس کے حکم
کو مانے پھر اُس کے رسول سے کریں اور پھر خود سے کریں۔
جی
ہاں جب تک ہم خود سے محبت نہیں کرتے ہم کیسی اور سے بھی نہیں کے سکتے ۔
پہلے
خود کو اس قبل بنائے کہ آپ سے محبت کی جائے ۔ ورنہ محبت کی بھیک مانگنے سے آپ کو ایک
انسان تو مل سکتا مگر نہ آپ کو کبھی محبت ملے گی اور نہ ہی کبھی عزت۔
از
قلم ایمان بابر
********************
Comments
Post a Comment