آرٹیکل:
ایک قوم اور اُمت
از قلم ایمان بابر
میرا
نام ایمان بابر ہے آپ میں سے بہت سے لوگ مجھے پہلے سے جانتے ہوں گے ۔ اگر نہیں جانتے
تو میں اپنا تعارف کروا دیتی ہوں کہ میں ایک ناول نگار ہوں ۔ میں نے بہت سی کہانیاں
لکھی ہیں۔
مگر
ذرا روکیں میں کوئی عشقیہ داستانیں نہیں لکھتی ۔ میری کہانیوں میں مہذب ، دوستی ، معاشرے
میں ہونے والے سچے واقعات کی جھلک شامل ہوتی ہے ۔
یہ
میرا پہلا آرٹیکل ہے جو میں لکھ رہی ہوں اس کے موضوع سے آپ سب کو یہ مطالعہ پاکستان کتاب کا ایک باب لگ رہا ہوگا۔ایسا نہیں ہے ۔ چلیں
اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جو ہے۔ " ایک قوم اور اُمت"
دنیا
میں سب سے زیادہ پائے جانے والی قوم اور مہذب اسلام ، مسلمان کا ہے ۔ ہم اس دنیا میں
کہیں بھی چلے جائیں ہمیں ہمارے مسلمان بہن بھائی لازمی ملیں گے ۔
ایسے
ہی دنیا میں ایک بہت پیاری سر زمین ہے جس کو "فلسطیں" کہتے ہیں ۔
یہ
سر زمین بہت خوبصورت ہے ۔ یہ کشمیر کے بعد میرے نزدیک دوسری جنت ہے ۔ یہاں ہمارا پہلا قبلہ بھی ہے یعنی مسجدِ اقصیٰ ۔
مگر
افسوس سے یہ زمین اب ایک آزمائش سے گزر رہی ہے ۔ اس پاک زمین پر اب آپ کو ہر طرف چیخوں
کی آوازیں آتی ہیں ۔
یہاں
پھولوں کو نکلنے سے پہلے ہی دفنا دیا جاتا ہے ۔ یہاں کا ہر گھر ہر دیوار مسلم اُمت
کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ جاگو ۔
میں
زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گی ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ کوئی کل کی بات نہیں ہے بلکہ
پچھلے کئی سالوں سے وہاں ظالم اپنے ظلم سے
اُن معصوم بچوں کی آہوں کو اپنے ظلم سے دبا رہا ہے ۔
مگر
میرا سوال آپ سب سے ہے کہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ جو وہاں ہی
رہا ہے یہ اُن کی آزمائش ہے ؟ جی نہیں یہ ہماری آزمائش ہے ہم سب کی ، ہماری ساری اُمت
کی ۔
وہ
لوگ تو شہید ہو کر امر ہو رہے ہیں ۔ بزدل تو ہم ہیں کہ ساری سہولت ہونے کے باوجود بھی
خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ۔
پاکستان
کی بات کرتی ہوں یہاں غریب طبقے کو مہنگائی اور ماہانہ اخراجات کے بوجھ تلے ایسے دبا
دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذات سے نکل کر کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا اُس کی سوچیں بس اپنے
اور اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔
مجھے
شکایت اصل میں اُن لوگوں سے ہے جن کے پاس اللہ کی ہر نعمت ہے ۔ جن کو عوام سنتی ہے
، جن کی بات عوام مانتی ہے ۔
یہ
سوشل میڈیا انفولینسر ، یوتوبر اور یہ ڈراما ، فلم اسٹار ۔ ان کے پاس اتنی طاقت ہے
کہ اگر یہ آواز اٹھائیں تو ہزاروں لوگ ان کو سنے گے ۔
مگر
یہ لوگ خاموش ہے کیوں ؟ اگر بولیں گے تو پیسہ کہاں سے کمائیں گے ؟ یہ لوگ فلسطیں کے
حق میں بات بھی کرتے ہیں اور اسرائیلی پروڈکٹ کو استعمال اور پروموٹ بھی ۔
منافقت
کو حد نہیں ان میں ۔ اور پھر اتے ہیں کچھ روایتی مسلمان جن کو دیکھو تو لگتا ان سے
زیادہ اسلام تو کسی کے پاس نہیں ۔ مگر ان ہی کے گھر میں کھانے کی میز پر سب سے پہلے
رکھی جانے والی چیز کوکاکولا ہے ۔ اسلام کے نام پر واہ واہ لینے والے اسلام کے نام
پر شہید ہونے والوں کے لیے کچھ نہیں سکتے۔
افسوس
تو اس بات کا ہے۔ کہ لفظ " حلوہ" پر قتل کر دینے کو آنے والے یہ روایتی مسلمان
۔ اُس ظلم پر خاموش ہیں ۔
میں
یہ نہیں کہتی کہ تلواریں لے کر باہر نکل جاؤ ۔ نہیں لیکن اتنا تو حق ادا کرو کہ کل
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے آگے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔
اگر
اس قوم کا ہر ایک بچا، ہر ایک فرد زیادہ نہیں بس ایک ایک اشیاء کہ بھی بائیکاٹ کرنے
لگ جائے تو فرق ساری اُمت دیکھے گی۔
اسلام
انسانیت کا درس دیتا ہے ۔ اتنے بے حس نہ بنے آج وہ مظلوم ہیں تو یاد رکھیں وقت بدلتے
دیر نہیں لگتی اللہ اگر پکڑ کرنے پر آیا تو کل کو اُن کی جگہ ہم ہوں گے ۔
از
قلم ایمان بابر
***************
Comments
Post a Comment