عنوان:
سنبھالو
رائٹر : اللّٰہ کی لاڈلی🫠
اگر کسی کو برا لگے تو پیشگی معذرت
اگر
مجھ سے بچنا ہے تو اپنا حسن
سنبھالو!!!
میں
مرد ہوں۔
وہی
مرد جسے تم حیوان کہتی ہو۔۔۔
جسے
تم کبھی درندہ کہہ کر پکارتی ہو تو
کبھی
جانوروں سے بھی بدتر القابات دیتی ہو۔۔۔
جسے
تم جسم کا پجاری کہتی ہو۔۔۔
جسے
تم ہوس کا مارا کہتی ہو ۔۔۔
میں
مرد تیری ان سب باتوں کا اعتراف کرتا ہوں ،
میں حیوان ہوں ، درندہ ہوں ، جسم کا پجاری ہوں۔۔۔
مرد
آگ ہے۔۔۔
اور
عورت یہ بات جانتی ہے
چنگاری
لگنے کی دیر ہے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔۔۔
اور
آگ کبھی چنگاری کے بغیر نہیں لگتی۔۔
قصور
کس کا ، آگ کا یا چنگاری کا ؟
فیصلہ
آپ کریں۔
میں
نے روزہ رکھا کام کیلئے بازار آیا
کہ
اچانک خوشبو آنے لگی
سوچا
چھوڑ میاں روزے سے ہو نظریں نیچے ٹکاۓ
رکھو۔۔۔
لیکن
جونہی خوشبو کا احساس زیادہ ہوا۔ میں مائل ہونے لگا کہ حواس باختہ ہوکر نظریں اٹھانے
پر مجبور ہوگیا۔۔۔
نظریں
اٹھنے کی دیر تھی ، حسین جمیل پری آنکھوں کے سامنے ڈوپٹا لیے، ایک سائڈ سے ڈوپٹا اپنے
کاندھے پر رکھا ہوا تھا
کیا
حسن تھا جیسے سارا حسن اسی پر ختم ہوگیا ہو۔۔۔
خوب
بناؤ سنگھار کیا ہوا۔۔۔
آنکھوں
میں کاجل ، ہونٹوں پر سرخی۔۔۔
میں
گھورنے لگا
کہ
اچانک محترمہ میرے پاس رکیں اور مخاطب ہوئیں ہیلو اوۓ
کیا گھور رہے ہو۔۔۔۔
میرے
پاس جواب نہیں تھا۔
کیا
کہتا۔
ارے
اس میں میرا کیا قصور ، فطرت ہے مرد کی۔۔۔
حسن
کو دیکھے گا تو دل للچاۓ
گا۔۔۔
لیکن
ذرا پیچھے دیکھیے، میرا ایسا اراده نہیں تھا،
لیکن مجھے خوشبوؤں نے چنگاری لگائی۔
پھر
حسن اور نمائش نے مجبور کردیا کہ اسے دیکھوں
دکان
پر گیا، ٹی وی آن کیا ویسی ہی بے شمار حسیناؤں کو احتجاج کرتے دیکھا۔۔۔
میں
پھر پریشان
اچانک
میری نظر ان کے ہاتھوں میں پکڑے
مختلف
بینرز پر پڑی۔۔۔
عورت
کو کھلونا نہ بناؤ
عورت
کو آزاد کرو
ریپ
بند کرو
مجھے
گھورنا چھوڑو
مجھے
آزاد کرو
میں
عورت ہوں کھلونا نہیں ---
میں
عجیب کشمکش میں گم تھا۔۔۔
پھر
میں نے نتیجہ نکالنے کی ٹھانی کہ غلطی ) کس کی؟
میں
نے محلے اور بازار کے گھٹیا اور آوارہ ترین مردوں سے ایک سوال پوچھا۔۔۔
کیا
تم نے کبھی اسلامی برقعے میں ملبوس کسی عورت کو گھورا یا گندی نظر سے دیکھا
ان
سب کا ایک ہی جواب تھا۔۔
بھائی
بھلا ٹوپی والا برقعہ پہنے لڑکی جارہی ) ہو تو کون دیکھتا ہے۔۔۔
!ہم تو بس آئٹم دیکھتے ہیں۔۔۔
کیا
کیا کیا۔ .؟؟
ایک
لڑکی نے لائن دی ، بات چیت پر پہنچی
بنا
کہے اپنی تصویر بھیج دی
مرد
نے تعریف کی۔۔۔
پھر
کچھ ہی دنوں میں تصویر مانگی تو
بنا
ڈوپٹے کے یا گلے میں ڈوپٹہ لیے تصاویر کی لائن لگـ
گئی۔۔۔
اب
مرد کیا کرے۔۔۔
مرد
کی تو فطرت ہے قدرت نے رکھی ہے۔۔۔
فطرت
سے لڑنے کو تو رہا ۔۔۔
ملاقات
کا پوچھا تھوڑے سے اصرار پر (لڑکی)
مان
گئی۔۔۔
ملے
دو تین ملاقاتوں میں بات آگے پہنچی۔۔۔
بالکل
باہمی رضامندی سے جسمانی تعلق قائم ہوا۔۔۔
لیکن
وقت نے ورق پلٹا اور لڑکی پریگنینٹ ) ہوگئی
سوچیے
اب کیا ہوگا ۔۔۔ ؟
لڑکی
نے لڑکے کو فون کیا۔۔۔
غصہ
ہوئی گالیاں دی۔۔۔
مرد
کو ایک لمحے میں ظالم بنا دیا ۔۔۔۔
بولنے
لگی تمہاری وجہ سے مجھے یہ دن
دیکھنا
پڑا۔۔۔
تم
نے میری عزت خراب کر دی۔۔۔۔
تم
صرف ٹائم پاس کررہے تھے۔۔۔
تم
تو صرف جسم چاہتے تھے۔ ---
تم
ہوس کے مارے تھے۔
تم
نے میرا استعمال کیا۔۔۔
اب
کیا ہوا۔۔۔
وہی
لڑکی ایک کونے میں کھڑی مظلوم بن
بات
آگے بڑھی سماج کے کٹہرے میں آئی۔۔۔
عدالت
نے ثبوت دیکھے اور مرد کو ریپسٹ
قرار
دے دیدیا۔۔۔
یا
پھر مرد کو ظالم اور عورت کو مظلومیت کی پہلی صف میں کھڑا کردیا۔۔۔
مرد
تو ظالم تھا حیوان کہلایا ۔۔۔)
نہ
تو سماج کی عدالت نے مرد کی سنی نہ
قانون
کی عدالت نے۔۔۔
قانون
نے آگ تو دیکھی، چنگاری کو نظر انداز کردیا۔۔۔
عورت
کو بری کردیا اور مرد کو قید کی سزا سنا دی۔
کالم
نگار اٹھا ، مرد کو حیوان لکھا درنده (لکھا جانور لکھا ، شکاری لکھا۔
جو
دل میں آیا لکھ ڈالا۔
عورت
کے انٹرویو شروع ہوئے اور عورت )
اسٹار
بن گئی اور مرد ایک بار پھر تاریخ میں اپنا تعارف حیوانیت کے قصے میں لکھوا گیا۔۔۔
بات
یہاں بس نہیں ہوئی۔۔۔۔
میں
نے ارادہ کیا میں اب عورت کو نہیں گھوروں گا۔۔۔
لیکن
بازار موبائل لینے گیا عورت حسن کی نمائش کے ساتھ موبائل بیچ رہی تھی۔
میں
سم لینے آفس گیا وہاں لڑکی الیکٹرونکس مارکیٹ گیا وہاں لڑکی ، سفر کے لیے بس سوار ہوا
وہاں لڑکی ، حتیٰ کہ میں مٹھائی لینے گیا تو یقین کیجیے وہاں بھی لڑکی۔
***************
Comments
Post a Comment