Pukar e Aqsa Article by Muhammad Usman

"عنوان:"

"پکار اقصٰی"

"تحریر:"  "محمد عثمان"

اے امت مسلمہ! مُجھے مسجد اقصی کہتے ہیں میں مشرقی یروشلم میں واقع ہوں مجھ میں ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں مجھے الحرم القدسی الشریف بھی کہا جاتا ہے۔مجھے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے بڑے پیار سے تیار کیا تھا۔میں بہت بار کفر کے ہاتھوں پامال ہوئی لیکن سرفروشان اسلام نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ایک وقت آیا جب مجھے عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ جیسے جری،غیور اور بہادر انسان نے کفر کے ہاتھوں سے چھینا،مجھے فتح کیا گیا اور عالم انسانیت پر میری عظمت آشکار ہوئی۔

 

"غفلت میں گرفتار ہیں لیکن نہیں بھولے

حضرت عمر کے نقشِ قدم مسجد اقصی"

 

اے ایمان کے دعویدارو۔۔۔!

تمہاری غفلت اور کوتاہی کی ہی بدولت میں دوبارا صلیبیوں کے قبضہ میں گئی تمہاری جبینوں سے میری سرزمین کے سجدے چھین لئیے گئے۔میرا وقار مجروح کیا گیا میری شان وشوکت روندی گئی مجھے مسجد کے بجائے معبد سلیمانی کہا جانے لگا۔

میں روتی رہی،سسکتی رہی،تڑپتی رہی،بلکتی رہی۔! میں نے آنچل اٹھا اٹھا کر تمہیں پکارا میرا زخمی وجود تمہیں دہائیاں دیتا رہا مگر تم! خواب غفلت میں سوئے رہے،تمہاری راتوں کی نیند میں خلل نہ آیا تمہارے دن کی عیاشیوں میں فرق نہ آیا میرے آنسوؤں کی تم نے پرواہ نہ کی لیکن مجھے اس پر بھروسہ تھا جس نے مجھے اقصی بنایا تھا جس نے مجھے انبیاء کا مسکن بنایا تھا۔بالآخر اس نے میری پکار سن لی اور اپنا ایک دیوانہ بھیجا۔

"جس نے میرے آنسوؤں کی قیمت طاغوت کے لہو سے وصول کی۔"

"جس نے میرے زخموں پر مرہم کفر کے سینے کو چاک کر کے لگایا۔"

"جس نے مجھے روندنے والوں کے چیتھڑے اڑائے۔"

"جس نے میری شان و شوکت کا علم کفر کے سینوں میں گاڑا۔"

 اس مرد مجاہدکا نام "ایوبی" تھا۔

جی ہاں وہی ایوبی جس کے پیروکار ہونے کے دعوے کرتے ہو۔جس کے متعلق کہتے ہو کہ ہم ایوبی کی یلغار ہیں۔جس کے متعلق کہتے ہو ہم ایوبی کی تلوار ہیں۔لیکن نہیں تم کچھ نہیں ہو تم صرف باتیں بنا سکتے ہو نعرے لگا سکتے ہو سو یہ کرو گے اور سو جاؤ گے۔تمہیں اس ایوبی سے کیا نسبت ہے جس نے مجھے کھویا ہوا مقام دلوایا۔

جس نے مجھے آزادی دی۔

جس نے مجھے سجدوں سے آباد کیا۔

دیکھو تمہیں اس لیے اس جوان سے نسبت نہیں ہے کیونکہ میں!

 میں مسجد اقصی جسے تم بیت المقدس بھی کہتے ہو ہاں جسے تم اپنا قبلہ اول بھی کہتے ہو آج پھر یہودیت کے ہاتھوں میں ہوں 1967 سے مجھ پر عالم کفر کے پنجے گڑے ہیں 57 سالوں سے صیہونی طاقتیں مجھ پر قابض ہیں مجھے کئی بار نذر آتش کیا گیا مجھ میں رکھا ایوبی کا منبر جلایا جا چکا ہے۔!

اے امت مسلمہ جاگ خدارا ہوش میں آ۔۔۔!

مجھے پہچان میں کون ہوں۔۔۔؟

ادھر آ میں تجھے اپنا تعارف کرواؤں۔!

میں وہ مسجد ہوں جو بیت اللہ کے بعد بنائی گئی۔ ہاں میں ہی وہ مسجد اقصی ہوں جہاں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء کی امامت فرمائی تھی۔

مسلمانوں۔۔۔!

میں وہ مسجد ہوں جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔

میں وہ مسجد ہوں جہاں سے تمہارے پیغمبر کے سفر معراج کا آغاز ہوا۔

میں وہ مسجد ہوں جس کی طرف سفر کرنے کو باعثِ سعادت و برکت اور عبادت قرار دیا گیا۔

 

اے امت محمدیہ۔۔۔!

سنو سنو میری پکار سنو۔۔۔!

 

میں عرصہ دراز سے آگ و خون کی لپیٹ میں ہوں مجھے آئے روز کفر کے ناپاک قدم جھیلنے پڑتے ہیں ان کے پلید قدموں کی چاپ سے میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔

مجھے بارود میں نہلا دیا جاتا ہے میرے نمازیوں کو خون میں ڈوبو دیا جاتا ہے معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑا دیئے جاتے ہیں میری فضا میں گونجتی آذان کی آواز گنگ کر دی جاتی ہے۔

اب پھر نئے سرے سے کھیل رچایا جا چکا ہے میرے زخموں کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔

میری عظمت کو مٹانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔

لیکن تم کب جاگو گے!...؟

کس کا انتظار ہے!۔۔۔؟

کیا تمہیں میرا پھٹا دامن نظر نہیں آتا۔۔۔؟

کیا تمہیں میرا زخمی وجود لرزاتا نہیں۔۔۔؟

کیا تمہیں میرا چھلنی آنچل جھنجھوڑتا نہیں ہے۔۔۔؟ کیا تمہیں میری چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔۔۔؟

خدارا ہوش میں آؤ میری پکار سنو۔!

میری طرف دیکھو۔!

میری دل سوز آہیں سنو۔!

اے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

میں تمہیں پکار رہی ہوں بلا رہی ہوں خدارا کھوکھلے نعروں سے نکلو!

زبانی دعوؤں سے آگے بڑھو!

محض باتیں کرنے اور اپیلیں کرنے کے بجائے میدان عمل میں اترو دل میں ایمان لیے ہاتھ میں تلوار لیے رزم گاہ حق و باطل سجاؤ بتا دو ان طاغوت کے لشکروں کو ابھی غیرت مسلم زندہ ہے۔

 

"لے مسلم ایسی انگڑائی کہ مٹی میں دفن کفر کا ہر مندر ہو جائے

ممکن ہے یہ اک بہانہ ہو اور پیدا سکندر ہو جائے

یوں جھوم کے چل سوئے مقتل کہ جاگتا خنجر سو جائے"

 

اٹھو ایمان کے دعوے دارو!

اٹھو اسلام کے پیروکارو!

اٹھو شہادتوں کی تاریخ دہرانے والو!

اٹھو! اور میری آبرو کی حفاظت کرو ورنہ یاد رکھو میرے ساتھ تمہارا وجود بھی مٹ جائے گا۔

 

"نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے

تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں"

*************

Comments