Haqeeqat article by Allah ki ladli

حقیقت

رائٹر : اللہ کی لاڈلی

جو بیٹیاں شادی کے بعد بھی ماؤں کی دہلیز نہیں چھوڑتیں وہ کس کس کا نقصان کرتی ہیں؟

 

ہمارے معاشرے میں جب تک بیٹیاں بیاہی نہ جائیں تب تک ماں باپ کے سینے پر بوجھ رہتی ہیں۔ اور وہی بیٹیاں شادی ہوجانے کے بعد اماں ابا خصوصاً اماں کی منظورِ نظر بن جاتی ہیں۔

مائیں لاڈ کے مارے خود شادی شدہ بیٹیوں کو گھر بلاکر یا فون کر کر کے اپنے مسئلوں میں اتنا الجھا دیتی ہیں کہ نہ بیٹیوں کا گھر بس پاتا ہے اور نہ ہی ماں کے گھر میں بیاہ کر آنے والی اس کی اپنی بہو اپنا گھر بسا پاتی ہے۔

 

📝 نیچے ہم بیان کریں گے وہ وجوہات جن کی وجہ سے اچھے بھلے بسے بسائے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔

 

 🥀 بھابھی سے مقابلہ:

شادی شدہ بیٹیاں بار بار گھر آکر اپنی زندگی کا موازنہ اپنے بھائی بھابھی سے کرتی ہیں مثال کے طور پر اگر بھائی بھابھی کے مقابلے میں ان کی مالی حالت اچھی ہے تو وہ اس کا بلند آواز میں اظہار کریں گی جیسے کہ ارے ہم تو کل فلاں ہوٹل کھانا کھانے گئے تھے،

بھئی ہم تو چھٹیاں منانے فلاں مقام پر جائیں گے۔

اس طرح کی باتوں کا مقصد اپنی امارت جتانا اور اگلے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے

جس کی وجہ سے بھاؤجوں کے دل میں نفرت، حسد اور رقابت کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں۔

اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی بیٹیوں کے مالی حالات بھابھیوں کے مقابلے میں خراب ہوں تو پھر وہ بھابھی کے پاس موجود ہر چیز سے حسد کرتی ہیں۔

🥀 ماں اور بھائی سے اسی چیز کی ضد کرتی ہیں جو ان کی بھابھی کے پاس موجود ہو۔

نہیں تو اسی چیز کا مطالبہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہیں جو اگر ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو لڑائی جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔

 

نجی معاملات میں مداخلت:

 

کون کہاں کھانا کھانے گیا؟

کب واپس آیا؟

امی کھانا آپ نے کیوں بنایا ؟

بھابھی اتنی دیر تک کیوں سوتی ہیں ؟

بھائی نے بھابھی کو سر پر چڑھایا ہوا ہے؟

یہ وہ سوالات اور اعتراضات ہیں جو شادی شدہ بیٹیاں اپنے میکے آکر اپنی ماں اور گھر والوں کے گوش گزار کرتی ہیں۔

اور ظاہر ہے اپنے نجی معاملات میں مداخلت سگے بہن بھائیوں کو برداشت ہو بھی جائے تو بھابھی کو کیونکر ہوگی۔

ساس اور نندوں کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ بہو ہو یا بھابھی ایک آزاد انسان ہے جس کے اپنے خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقے ہوتے ہیں

ان پر بات کرنے، روکنے ٹوکنے یا بلاوجہ ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔

کہیں نند بھاوج کے آپس میں اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں ۔

تو کہیں نند ، بھائی اور بھابھی کے درمیان ناچاقی کی وجہ بن جاتی ہے۔

ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں نندوں کے کان بھرنے سے بھابھیوں کا بسا بسایا گھر اجڑ گیا اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔

 

🥀 اپنے گھر، شوہر اور سسرال سے لاتعلق ہوجانا:

اس تمام صورتحال میں جب لڑکیاں اپنے میکے سے لو لگالیتی ہیں تو ان کی توجہ ان کے اپنے گھر یا سسرال سے پوری طرح ہٹ جاتی ہے۔

شوہر دفتر کب گیا،؟

اس نے ناشتہ کیا یا نہیں ،؟

رات میں آکر کیا کھائے گا،؟

سسرال میں ان کی اپنی ذمے داریاں کیا ہیں ،

توجہ ان باتوں سے ہٹ کر صرف میکے پر ہی مرکوز رہتی ہے۔

🥀 جن کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے سسرال میں اپنا مقام کھو دیتی ہیں، اور شوہر کے دل سے بھی اتر جاتی ہیں۔

 

🥀 قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا:

 

شادی شدہ بیٹی یا نند کبھی کبھار میکے جائے تو ماں کے ساتھ ساتھ بھابھی بھی خوب آؤ بھگت کرتی ہیں ۔

 طرح طرح کے کھانے اور پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے ہیں ۔

 

دل میں نند کے لئے کیسے بھی جذبات ہوں لیکن یہ سوچ کر کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے آئی ہے منہ پر میٹھی مسکان سجائے بھابھی نند سے خوب نرمی اور اخلاق سے پیش آتی ہیں جس سے بیٹی کو عزت اور مان کا احساس ہوتا ہے۔

جبکہ روز روز کے جانے سے یہ قدر ماند پڑجاتی ہے اور اکثر گھر کا دال دلیہ بھی خود جا کر باورچی خانے سے نکالنا پڑتا ہے اور اس دوران اگر شوہر بھی ساتھ ہو تو رہی سہی عزت بھی جاتی رہتی ہے۔

 

 بچوں کی بربادی:

میکے میں ہمیشہ آباد رہنے کی چاہ کرنے والی لڑکیوں کے بےحسی والے رویے کا اصل بھگتان ان کے اپنے بچے بھگتتے ہیں۔

بچے جو ہر وقت ماں باپ کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں وہ بھی ماں کی لاپروائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جس کا نتیجہ یا تو خراب صحت یا خراب تعلیمی کاردرگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

یا پھر ماں کی دیکھا دیکھی وہ بھی دنگے فساد اور بد زبانی والی روش اپنا لیتے ہیں۔

 

 

اس مسئلے کی اصل ذمہ دار لڑکیوں کی اپنی مائیں ہوتی ہیں جو بیٹیوں کو بار بار فون کر کے یا گھر بلا کے ان کی توجہ ان کے گھر سے بھٹکاتی ہیں ۔

 

ماؤں کو کوشش کرنی چاہئے کہ شادی شدہ بیٹیوں کو ان کے اپنے گھر ، شوہر اور بچوں پر توجہ دینے کی نصیحت کریں ،

نہ کہ ان کو اپنے گھر کے مسائل اور ساس بہو کے جھگڑوں میں شامل کر کے ان کو ذہنی طور پر پریشان کریں۔

مائیں اس بات کی اہمیت سمجھیں کہ شادی کے بعد ان کی بیٹیوں کا اصل گھر ان کے شوہر کا گھر ہے۔

 نہ کہ میکہ جبکہ بطورِ ساس ان کو اس لڑکی پر توجہ دینی چاہئیے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کے گھر آگئی ہے۔

 

اس کے علاوہ بیٹیوں کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ زندگی کا مقصد اپنے سفر کو آگے بڑھانا ہے۔

 اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ دوسروں کے بجائے اپنے معاملات پر دھیان دیں۔

اپنی توجہ کا مرکز اپنے گھر اور بچوں کو بنائیں۔

 زندگی کو بہتر انداز میں جئیں نا کہ دوسروں کے مسائل میں کھو کر اپنے قیمتی لمحات کو ضائع کریں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments