ہمارے محافظ غلام نبی آفریدی کے نام
سدرہ اختر راجپوت
پولیس
ڈیپارٹمنٹ جس کے بارے میں کافی لوگوں کا نظریہ بہت غلط ہے جہاں دوسری طرف یہ ہمارے
محافظ ہیں اپنی جان کی بازی لگا کر ہمیں درندوں جیسے انسانوں سے محفوظ رکھتے ہیں لیکن
ایک بات یہ بھی سچ ہے کہ آج کل کی فلموں ڈراموں میں جو دکھایا جاتا ہے عوام اس پر زیادہ
یقین کرتی ہے۔
کچھ
غلط آفیسرز کی وجہ سے پوری ڈیپارٹمنٹ بدنام ہوتی ہے آج کی میری تحریر پھر سے غلام نبی آفریدی کے نام ہے ان کے بارے میں پہلے بھی میں لکھ چکی ہوں کٹی پہاڑی
پر پوسٹنگ کے دوران انہوں نے کار چوروں کے بہت بڑے گینگ کو پکڑا تھا جو کار چوری کر
کے کار کے انر پارٹس کو سیل کرتے تھے اس کے بعد سے انہوں نے اپنی بھرپور محنت سے منشیات
فروشوں کا نام و نشان ختم کردیا اپنا ایسا نام قائم کیا کہ انکا نام سنتے ہی چوروں
کے چھکے اڑ جاتے ہیں خیر یہ تو ان کا ایک کارنامہ تھا اب بات کرتے ہیں ان کے دوسرے بڑے کارنامے کی بروز
بدھ 3:45 پر شاہراہ نور جہاں کے قریب نجی بینک میں ڈکیتی ہوئی جس میں 5 مصلح افراد(ڈاکو)
گن پوائنٹ پر 80 لاکھ کی رقم لے کر فرار ہوئے۔
تقریباً
شام سات بجے کے قریب ایڈیشنل آئ جی کے احکامات پر
انسپیکٹر غلام نبی آفریدی اور انسپیکٹر اورنگزیب خٹک کو ٹاسک ملا جس پر انہوں
نے فوراً کاروائی شروع کردی اور آخر کار 16 گھنٹوں میں اپنی بھرپور محنت اور کوششوں
کے بعد پانچوں ملزمان کو اندرون سندھ سے تلاش کر کہ بمع رقم 80 لاکھ تھانے میں لا کر
کھڑا کردیا جو کہ اب کسٹڈی میں ہیں۔
16 گھنٹوں میں اتنا بڑا کیس
حل کرنا کوئی مزاک نہیں ہے ماننا پڑے گا اللہ تعالیٰ کا ان صاحب پر کوئی خاص کرم ہے۔
یار
یقین مانیں میرا کبھی کسی اچھے پولیس والے سے سامنا نہیں ہوا لیکن ان کے بارے میں سن کر واقعی لگتا ہے کہ پولیس
ڈیپارٹمنٹ میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔
ویسے
ڈاکو بھی اخبار پڑھتے ہیں میرا اگر یہ آرٹیکل سامنے آئے تو میری رائے یہی ہے جہاں ان
صاحب کا ٹرانسفر ہو وہاں ڈکیتی کرنے سے پرہیز کیا کرو۔
اللہ
نگہبان۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment