آرٹیکل:
کیا ہم کوفی ہیں؟
مصنفہ : زکیہ قمر
آج
سے بائیس سال پہلے جب امریکہ کی ورلڈ ٹریڈ بلڈنگ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو
کسی کو یاد ہے کہ اس نے کیا کیا تھا ؟ اگر نہیں تو میں یاد کروا دیتی ہوں امریکہ
نے پورے پاکستان اور افغانستان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی
تھی۔ پورے ملک میں ان کے ڈرون دندناتے پھرتے تھے امریکہ میں پڑھنے والے طلباء کو
یا تو ملک بدر کر دیا گیا یا دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ عافیہ
صدیقی بھی انہی بد نصیبوں میں سے ایک ہے آج
تک اسے جیل کی کوٹھری سے رہائی نصیب نہیں ہوئی۔ وہی امریکہ جو تمام
مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر سولی پر چڑھانے کے درپے تھا صرف ایک عمارت پر
حملے کی وجہ سے، آج کیوں وہی امریکہ اسرائیل کی سپورٹ میں کھڑا ہے روزانہ غزہ کے
مسلمانوں پر درجنوں میزائیل گراۓ
جاتے ہیں جن سے روزانہ سینکڑوں افراد شہید ہو رہے ہیں تو امریکہ کو یہ دہشت گردی
کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم خود خاموش ہیں جب تک ہم خود اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے نہیں آگے بڑھیں گے,
اپنے حق اور خوداری کی خود حفاظت نہیں کریں گے کوئی اور بھی ہماری مدد نہیں کرے
گا۔ آج اپنے بھائیوں، ماؤں، بچوں اور بوڑھوں کے بکھرے لاشوں کو دیکھ کر بھہ ہم
خاموش ہیں کیا ہم اتنے بے حس ہیں یا بے
بس؟؟؟
راحیل
شریف جسے 43 اسلامی ممالک کی متحدہ فوجی دستے کا سربرہ بنایا گیا تھا۔ اس فوج کا
مقصد اگر کوئی بھول گیا ہو تو میں یاد کروا دوں اس کا مقصد حرمین شریفین کی حفاظت
طے پایا تھا اور اس کی لاکھوں ڈالرز تنخواہ یہ دستہ لے رہا ہے۔ اب جبکہ عملی طور
پر اس کی ضرورت پیش آئی ہے تو یہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں بیت المقدس
ہمارا تیسرا حرم ہے اگر یہ لوگ اس کی حفاظت نہیں کر سکتے تو یہ کس مرض کی دوا ہیں۔
عوام کی خون پسینے کی کمائی کیوں ان کی جیبیں بھرنے میں ضائع ہو رہی ہے؟؟
دوستو،
پاکستان دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے
جب پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی اور ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا تو
پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کیونکہ ان
کو لگتا تھا کہ اب دنیا کا کوئی ملک ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جراءت نہیں
کر سکے گا۔ مگر وہ غلط تھے آج فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے بچوں
بوڑھوں عورتوں کسی کا لحاظ نہیں رکھا جا رہا مگر باقی مسلمان ممالک کی طرح پاکستان
خاموش ہے بلکہ دوسرے اسلامی ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک بھی اس ظلم کے خلاف احتجاج
کر رہے ہیں مگر پاکستان ایٹمی پاور ہونے کے باوجود آنکھیں اور کان بند کیے بیٹھا
ہے پاکستان کے بے حس حکمران سیاست اور
اقتدار کی بندر بانٹ میں اس قدرمصروف ہیں کہ انہیں کسی کے دکھ درد سے کوئی سروکار
نہیں۔ ان کے بینک بیلنس بھرے ہوۓ
ہیں اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے ۔ کیونکہ پاکستان کو قرضہ دینے والے
ممالک اسرائیل کے ہامی ہیں اس لیے پاکستان کے مردہ ضمیر سیاستدان اسرائیل کی طرف
سے فلسطین پر کیے جانے والے ان مظالم پر آنکھیں بند کیے اپنے عیش و عشرت میں مصروف
ہیں۔ پاکستان کی فوج دنیا کی طاقت ور ترین فوجوں میں سے ایک ہے پاکستان کا 80 فی
صد بجٹ استمال کرنے والی یہ فوج دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود
آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے آخر کیوں؟؟
فلسطین
کو امداد نہیں ہتھیار چاہییں۔ آج ہم اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں اور پھر فلسطینیوں
کی حالت کو بھلا کر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عوام اپنے طور پر ڈونیشن
جمع کرکے فلسطین کو بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کیا انہیں ہمارے
ڈونیشنز اور امداد کی ضرورت ہے؟ جی نہیں غزہ کے مسلمانوں کو ہماری ڈونیشنز کی نہیں
ہماری آرمی اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ انہیں ہماری مالی امداد نہیں افواج چاہییں۔
کھانے
پینے کی اشیاء سے کیا ہوگا۔ ان چیزوں سے صرف اتنا ہو گا کہ غزہ کے بچی کھچی عوام
کو خوف و استبداد میں لپٹی چند سانسیں مزید میسر آجائیں گی۔ مگر ان کے سروں پر
لٹکتی موت کی تلوار تو وہیں جوں کی توں موجود رہے گی۔ زخموں اور دکھوں سے اٹے ان
کے وجود کچھ سانسیں اور لے لیں گے لیکن آخر کب تک؟؟ پھر کسی دن اسرائیل کے کسی
اندھے بم یا میزائیل کی زد میں یہ لوگ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہیں ہماری
امداد نہیں ہمارے ہتھیار چاہییں ہمارے مجاہد اور ہماری آرمی چاہیے جس کے لیے ہم
تیار نہیں۔ انہیں قرارداد مزمت انہیں اسرائیل کی مرمت کی ضرورت ہے۔
رسول
پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ زمین پر قیامت تک ایک ایسا گروہ ضرور ہی موجود رہے گا جو
حق کے لیے لڑے گا، جب آپﷺ سے صحابہ کرامؓ نے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون لوگ
ہؤں گے تو آپﷺ نے فرمایا وہ مسجد اقصی کے گرد بسنے والے لوگ ہوں گے۔ اور آج ان کا
سب سے بڑ جرم یہی ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق
کے لیے کھڑے ہیں۔
اور
آج میں کہنا چاہتی ہوں اہل تشعیع برادری سے کہ اے ہر سال حسین کا ماتم کرنے والو
دیکھو آج پھر کربلا کا میدان سجا ہے آج پھر مقتل سجا ہے، آج پھر حسین ننھے علی اصغر
کی پیاسے خون میں لتھڑے لاشے کو ہاتھوں میں اٹھائے تم سے سوال کر رہے ہیں کہ یہ ہے
تمہاری محبت؟ یہ ہے تمہاری حسینیت؟ ہر سال
حسین کا ماتم کرنے والو تم آج پھر حسین کے لٹنے کا تماشا دیکھ رہے ہو ۔ آج پھر
فلسطین کے لوگ سنت حسینی کو زندہ کرتے ہوۓ
اپنے ننھے بچوں کی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنا رہے۔ جوان علی اکبر کے لاشوں کو
اٹھاتے اٹھاتے ان کے کالے سر سفید ہوگۓ
ہیں، گریہ و غم نے ان کو بوڑھا کر دیا ہے۔ فلسطین کے لوگوں پر آج پھر یزید نے پانی
بند کر دیا ہے اے ہر محرم میں سبیلیں لگانے والو! اب تم کہاں سوۓ
ہو؟ فلسطین کے لوگ سنت حسینی نبھاتے ہوۓ
حسین کے نانا کا دین بچاتے ہوۓ
پیاسے جان بہ لب ہیں۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے سچ کہتے ہیں ۔ آج اللہ
نے تمہیں موقع دیا ہے سینہ کوبی چھوڑو ، کوفی بن کر حسین کے لٹنے کا تماشا مت
دیکھو، باطل کے سامنے سینہ سپر ہو جاؤ۔ ورنہ جس طرح تم آج حسین کا ماتم کرتے ہو
ناں تا قیامت مسجد اقصی کا ماتم کرو گے، اسرائیل فلسطین کی ماؤں کی گودیں اجاڑ رہا
ہے اور ہم اور تم تماشا دیکھ رہے ہیں جس طرح کل کوفہ والے خاموش تھے آج 55 اسلامی
ممالک کی افواج اور عوام خاموش تماشائی بنے ہوۓ
ہیں بات سننے میں تلخ ہے مگر سچ ہے ہم آج کے کوفی ہیں حسین کے لٹنے کا تماشے
دیکھنے والے بزدل کوفی۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment