عنوان :-
لفظ با لفظ
عروج چوہدری
زندگی
میں کبھی نہ کبھی ہم اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں وہاں صرف
ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے کوئی ماں باپ بہن بھائی نہیں ہوتے نہ کوئی دوست ہوتا
ہے پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی
آسمان' صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں
بھی تھامے ہوئے ہے پھر پتہ چلتا ہے زمین پر
پڑی مٹی کے ڈھیروں میں سے ایک ذریعے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت
نہیں رکھتے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں ہی فرق پڑتا ہے
صرف ہمارا کردار ختم ہوتا ہے کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا-
ہم
سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر زمانہ جاہلیت سے ضرور گزرتے ہیں بعض ساری زندگی اسی زمانہ میں گزار دیتے ہیں
کچھ صالح ہوتے ہیں کچھ صالح بنتے ہیں صالح ہونا خوش قسمتی کی بات ہے صالح بننا دوڈھازملواروں
پر چلنے کے مترادف ہے اس میں زیادہ تکلیف سہنی
پڑتی ہے-
عروج
ہر قوم پر نسل کا خواب ہوتا ہے اور پھر وہ
قومیں جن پر الہامی کتابیں نازل ہوئی وہ تو عروج کو اپنا حق سمجھتی ہیں مگر کبھی بھی
کسی قوم پر صرف اس لیے عروج نہیں آتا اسے ایک کتاب اور نبی دے دیا گیا ہے جب تک اس
قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لیے اپنی اہلیت ثابت نہیں کردی-
انسان
اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چُھوتا
ہے کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس
راستے پر سفر کرتا ہے وہ شکر کا ہوتا ہے یا نہ شکری کا .کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں
یا کمال کی طرف وہ شکر کرتے رہتے ہیں' چاہے وہ زوال حاصل کریں یا کمال کچھ ایسے ہوتے
ہیں جو ان دونوں راستوں پر سفر کرتے ہیں........... کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کےاور
زوال کی طرف جاتے ہوئے ناشکری کے........
**************
Comments
Post a Comment