ہم
بھی کیسے نا شکرے لوگ ہیں۔ جو چیزیں پاس ہیں
ان نعمتوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے، اور اگر کوئی ایک چیز بھی پاس نا ہوتو
اسی کا شکوہ ہمیشہ زبان پہ رکھتے ہیں،
کچھ
ایسا ہی آج مجھے محسوس ہوا، جب میں چاول کھا رہی تھی، ساتھ ہی امی بیٹھی فون پہ بات
کر رہی تھیں، اور وہ بات سن کے مجھے اتنے زور کی ہنسی آئی کی منہ سے
ہنسی کے ساتھ کچھ چاول باہر اور کچھ سانس کی نالی میں چلے گئے۔ خدایا یہ کیا ہو گیا۔۔
فٹافٹ سے پانی پیا اور کچھ چاول بڑی کوشش کے بعد نکل گئے اور ایک چاول گلے میں ہی چپک
گیا۔۔
میں
جب بھی سانس لوں تو مجے وہ چاول محسوس ہو۔ لیکن میں بے بس تھی کہ اللہ کے بنائے اس نظام کے پیچھے جس کا کنٹرول صرف اس
کے ہاتھ میں ہے۔۔ اپنی اس تکلیف کے پیچھے مجے اپنے سارے شکوے، ساری تکلیفیں بھول گئیں،
یاد تھا تو صرف اتنا کہ ایک چاول کا دانہ گلے میں ہے اللہ اس کو نکال دے۔۔
خوش
قسمتی سے کافی گھنٹوں بعد ذرا سی قہہ سے وہ دانہ خود ہی باہر آ گیا۔۔
ہماری
زندگی بھی چاول کہ ایک دانے کی طرح ہے، کبھی
ذرا سے تکلیف پہ سے سب شکوے بھول کر
گڑ گڑانے لگتے ہیں، زندگی کی بھیک مانگنے لگتے ہیں ، تو کبھی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شکر کرنے کی بجائے ذرا سی تکلیف پہ اکڑ جاتے ہیں،
شکوے کرنے لگتے ہیں۔۔
اللہ
تعالیٰ ہمیشہ اپنے شکر گزار بندوں میں شامل رکھے اور کبھی نا زبان پہ کوئی شکوہ آئے۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اربوں نعمتیں عطا کی ہیں، جن کا کوئی شمار نہیں، لیکن یقین جانیں
صحت جیسی نعمت کا کوئی مول نہیں، اگر جسم درد یا تکلیف میں ہو تو آپ کسی بھی ہزاروں کیا لاکھوں نعمت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔۔
اللہ
تعالی ہمیں پل پل اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین،
**********************
Comments
Post a Comment