Halat e hazira aur hum article by Fakhar Sabri



حالاتِ حاضرہ اور ہم

 

تم حیاء و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو

ہم نے ننگے جسموں کو ملبوسِ حیاء دیکھا ہے

ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے ہوئے کئی ابلیس

ہم نے کئی بار مئے خانے میں خدا دیکھا ہے

علامہ اقبال صاحب کا دہائیوں پہلے لکھا ہو ایہ شعر آج کے اس بدبو دار معاشرے کی خوب عکاسی کرتا ہے آج کے دور میں کون کیسا ہے وہ اس کے کردار اور ظاہری حلیے سے بالکل نظر نہیں آتا کیونکہ یہاں ہر کوئی منافقت کا لبادہ اوڑھےہوئے ہے۔ظاہری طور پر دین دار نظر آنے والے اور خود کو دین دار کہلانے والے لوگ ہی آجکل کے منافق ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ممبرِ رسول ﷺ پر بیٹھ کر تلقین و نصیحت کرتے ہیں کہ اخلاق اچھے پیدا کرو، کسی کا حق نہ کھاؤ،کسی سے زیادتی نہ کرو، والدین سے حسن ِ سلوک کرو اور وہ سب جس سے معاشرےمیں برائی پھیلتی ہے ان تمام کاموں سے باز رہنے کا درس دیتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے یہی وہ لوگ ہیں جو خود ان تمام کاموں سے خود کو باز نہیں رکھ پاتےبلکہ سب سے زیادہ یہی متقی نظر آنے والے لوگ ان تما م برائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے       معاشرے میں برائی ختم ہونا تو درکنار بلکہ مذید پھیلتی ہے۔                                                                                    

بالکل اسی طرح ہمارے ملک کی صحافت بھی اب بکاؤ بن کر رہ گئی یہ نام نہاد صحافی سرکاری و غیرسرکاری چینلز پر بیٹھ کر ہمیں نصیحت کرتے ہیں اور اچھے شہری ہونے کی کہانیاں سناتے ہیں اخلاقیات کے درس دیتے ہیں، کسی گھریلو ملازم پر تشدد ہو تو ان کے آنسوؤں نہیں تھمتے،                       کوئی امیر زادہ کسی غریب پر ظلم کردے تو آہیں بھرنے لگتے ہیں، کسی خاتون کے ساتھ زیادتی جیسا واقعہ پیش آجائے تو اسکو سخت سزائیں دلوانے کی ٹھان لیتے ہیں، کوئی سرکاری و غیر سرکاری ملازم یا سیاستدان کرپشن کرتا پکڑا جائے تو پورے پورے پروگرام کر ڈالتے ہیں۔ لیکن حقیقی زندگی میں یہی لوگ ان کاموں میں ملوث  پائے جاتے ہیں، کبھی ان ہی کے گھر کی گھریلو ملازمائیں وحشیانہ تشدد کا شکار ہوتیں ہیں تو کہیں یہی لوگ اپنی ہی قریبیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا زیادتی جیسے الزامات کا سامنا کرتے ہیں، کہیں یہی لوگ راہ چلتے غریب کو پہلے اپنی گاڑی سے کچلتے ہیں اور پھر اپنا رعب دبدبہ بنانے کیلئے اس غریب کی درگت بنا ڈالتے ہیں،کہیں انہی لوگ کی صحافت پیسوں کی محتاج ہوتی ہے ان کا قلم وہی لکھتا ہے،ان کی زبان وہی بولتی ہے جو ان کو پیسے دینے والا چاہتا ہےاور اگر کوئی ادار ہ ان پر کرپشن کی انکوائری کرنے کا خواب دیکھ لے تو یہ انکی ذاتیات کی خامیاں نکال لاتے ہیں اور ان کو بلیک میل کر کے انکوائری تو بند کرواتے ہی ہیں الٹا ان کی خامیاں چھپانے کی اچھی خاصی رقم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ ہی وہ لوگ ہیں جو ان سب برائیوں کو ختم کرنے کے ایسے ایسے حل بتاتے ہیں اور ایسی غیرت دکھاتے ہیں کہ کیا کہنے۔۔۔۔۔

اسی طرح اس ملک میں بسنے والے ہر ایک باشندہ اس کے ساتھ آپ گفتگو کرے تو لگے گا کہ اس سے نیک اور پرہیزگار شخص دنیا میں کہیں نہیں لیکن حقیقت میں وہ بھی بے شمار برائیوں کا شکار ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی تباہی ہی یہ ہے کہ ہم اچھا نظر تو آنا چاہتے ہیں لیکن اچھا بننا نہیں چاہتے۔ ہر ایک برائی کو برا بھی کہتے ہے اور برائی کرنے والے سے نفرت بھی کرتا ہے لیکن خود برائی کرنے سے باز نہیں آتا۔صرف منافقت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے آج ملک میں بے حیائی عام ہے ،امن و امان تباہ ہو چکا ہے،ظلم عام ہے،لا قانونیت ہے ، کرپشن کا بازار گرم ہے، فرقہ واریت عروج پر ہے،جاہلیت نے گھروں کو تباہ کر دیا ، جعلی پیروں کے جگہ جگہ آستانے ہیں،فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے ان سب برائیوں پہ ہر کوئی کڑتا ہے بولتا ہے لیکن اسے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔جب تک ہم اپنا کردار ادا نہیں کریں گے یونہی خاموش تماشائی بنے رہیں گے یہ برائیاں بڑتی جائیں گی اور اس قدر شدت اختیار کر جائیں گی کہ ہمیں برائی برائی ہی نہیں لگے گی اور ہمارے نسلیں ایسے ہی ماحول میں پرورش پائیں گی اور اسی کی عادی ہو جائیں گی ۔ خدارا خؤد کی پہچانو منافقت چھوڑوخالص بنو معاشرے کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرو ہم نہیں کرے گے تو کوئی باہر سے آکر تو نہیں کرے گا کیونکہ "اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے کا نہ سوچے" کبھی سوچا  کہ ہم سے پہلی قومیں جتنی بھی تباہ ہوئیں جیسے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم یا حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ؟؟؟ ان کی تباہی کی وجہ صرف ایک ایک گناہ بنا چاہے وہ ناپ تول میں کمی تھی،زنا کاری تھی یا کوئی اور لیکن افسوس آج ہم میں دنیا کا کوئی ایسا گناہ نہیں جو نہ پایا جاتا ہو، زنا کاری،شراب نوشی،ناپ تول میں کمی، نا انصافی،جھوٹ ،فریب،دھوکہ دہی،احکام ِ شریعت کی نا فرمانی ،چوری کوئی گناہ ایسا نہیں جو ہم میں نہ پایا جاتا ہو بلکہ ہم اس قدر بے شرم ہیں کہ ہم گناہوں پر بھی دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ یہ ایسے کرے تو گناہ نہیں ایسے کرے تو گناہ ہے کبھی تصور کریں کہ ان سب گناہوں کے باوجود ہم غرق کیوں نہیں ہوئے تو یاد رکھیں یہ ہم پر رحمت خداوندی ہے کہ ہم رحمت اللعلمین حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ کی امت ہیں جنہوں نے ساری زندگی اللہ رب العزت سے اس امت کی بخشش مانگی ورنہ جیسے ہمارے کردار ہیں کب کے الٹے لٹکا دیے جاتے بس دعاگو ہوں کہ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمیں ہدایت عطا فرمائے آمین۔

**************

Comments