مقابلہ
: "کہانی نویسی"
عنوان:
" تجدید عہد"
مصنفہ: نیہا علی
"مجھے فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر، مجھے فخر ہے اس بات پر کہ
میں دنیا بھر میں ایک آزاد ملسم ریاست "پاکستان" کے شہری کی حیثیت سے جانی
جاتی ہوں ۔ یہ وطن میری شناخت ، میرا مان اور میری پہچان ہے ۔ یہاں مجھے کسی جابر حکمراں
کے کرفیو یا میرے آزاد شہری کے حقوق ختم کیے جانے کا خوف نہیں ہے۔
دشمن
سے مقابلے کےلیے ہماری افواج ہر دم۔ تیار ہیں،
ہماری پاک افواج کے جانباز سپاہی سرحدوں پر پہرہ دے رہے ہیں ۔۔ ٧٦سال سے ہماری
پاک سر زمین کی حفاظت کے لیے اپنی قمیتی جانوں کا نزرانہ پیش کرتے آرہیے ہیں، لیکن
ہماری پاک فوج نے کبھی بھی اپنے دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور نا ہی مستقبل میں
ہونے دے گئے)إنشاءاللّٰه( ۔
یہی
وجہ ہے ہم اپنے ارض پاک کی کھلی فضاؤں میں خود مختار حیثیت سے سکون کا سانس لے رہے
ہیں۔ "
**
یوم
آزادی کے موقع پر ہر گلی کوچوں میں جھنڈیاں لگی جاتی تھی مگر اب ہمارے ملک میں اس دن
چھٹی دے دیتے ہیں ، ہماری آج کی نسل کو یہ نہیں پتہ کہ یہ دن کیوں مناتے ہیں بس انہوں
اس کی خوشی ہوتی ہے کہ آج چھٹی ہے ، جب کہ ہمارے بزرگوں کی جانب سے ملک حاصل کرنے کی
تگ ودو، جہدوجہد قربانیاں کے تحت ہمیں یہ اعتراف میں سر تسیلم خم ہے، جس کے نیتجہ میں
ہیمں ایک خود مختار ملک ملا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل ہوا ۔
آج
پاکستان کو ٧٦سال پہلے جس طرح ہمارے بڑوں نے
اس ملک کےلیے قربانی دی ہیں ویسے ہی ہم بھی اپنے ملک کےلیے وہ ساری قربانیاں کو یاد
کرنا چایے، باقی جو آزادی کی زمہداری ہیں ان کو پورا کریں ، جو اس کی تمیعر و تشکیل
کےلیے ضروری ہیں۔
یہ
صرف میرا یا آپ کا نہیں بلکہ سب کا فرض ہے جو اس ملک میں پیدا ہوا اور اس ملک کی وجہ
سے اس کی پہچان ہے۔
*
14اگست 1947ء کو مسلمانانِ
برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت 90سال کی طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً
آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز و ہندو سامراج سے آزادی
حاصل کی ۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم اُمہ کیلئے
نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق
کے تحفظ کی ضمانت ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق
آزادانہ زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں غیر مسلم بھی اپنے عقائد پر
عمل کرنے میں آزاد ہوںگے۔ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ بطور پاکستانی ہم اس عہد
کی پاسداری کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ آج آزادی کے دن تجدید عہدِ کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی
ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ محبت قربانی مانگتی ہے، جذبہ ایثار اور ایمانداری چاہتی ہے
تو کیا ہم اپنے ملک سے مخلص ہیں؟ ملک بھر میں صفائی، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ
کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ گھروں
سے باہر اور گاڑی میں سفر کے دوران کچرا اور تھیلیاں سڑک پر پھینکتے ہوئے ہم یہ کیوں
بھول جاتے ہیں کہ یہی کوڑا کرکٹ ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ بلدیاتی اداروںکا
کام اپنی جگہ لیکن ہمیں خود بھی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم ملک بھر میں
بڑھتے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار قوانین اور سڑکوں کی بدحالی کو قرار دیتے ہیں لیکن ہم
یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس انہی قوانین کی پاسداری کروانے
کے لیے تعینات کی گئی ہے، ہم بس انھیںبُرا بھلا کہتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سگنل
توڑ کر یا مخالف سمت میں گاڑی اور بائیک چلاکر فراٹے بھرتے ہوئے نکل جانا اپنی بڑی
کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ تو ہماری روزمرّہ زندگی کا ایک پہلو ہے،اس جیسے بہت سے دیگر
مسائل بھی ہیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر سرانجام دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم
کا پچھتاوا تک نہیںہوتا۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے
قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں، اس صورتحال کا تدارک اور
روک تھام ہماری فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
**
قوموں کی زندگی میں٧٦سال کوئی بڑا
عرصہ نہیں ہوتا، جس کی بنیاد پر اس قوم سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کردی جائے۔ یہ
حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آج وطنِ عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت
ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اس عرصے میں اس قوم کو
سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا
جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقین
کے ساتھ کہیجاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے
سے نہیں روک سکتی۔ آج ملک کی ٧٦ویں سالگرہ
کے موقع پر ہم سب مل کر خود سے یہ عہد کریںکہ اس دن کو جذبہ حب الوطنی کی تجدید کے
حوالے سے منائیں گے اور ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنا کردار بہتر انداز
میں ادا کریں گے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا، ساتھ ہی دوسروں کو بدلنے
سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔
بقول مولاناظفرعلی خان؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں
بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment