پائل
تحریر : لاریب فاطمہ
افسانہ
ہاتھ میں پھول پکڑے‘ وہ کبھی مسکراتا اور کبھی باتوں میں
مصروف ہو جاتا
”سلام
عادل صاحب“ وہ چونک کر پلٹا. قبرستان کا گورکن اس کے سامنے کھڑا تھا.
”وعلیکم
اسلام“ وہ مسکرایا...
”آج
آپ بہت دنوں بعد آںٔیں ہیں“ گورکن حیران ہوا کیونکہ پچھلے چند سالوں سے وہ روز یہاں
آتا تھا.
”یہ
شہر چھوڑ دیا ہے ... بھاگنا چاہتا ہوں یہاں سے... لیکن پلٹ کر یہاں ہی آ جاتا ہوں“
عادل اب اس سے نظریں ہٹا کر دوبارہ قبر کی طرف متوجہ ہو گیا
گورکن مسکراتا ہوا واپس اپنی جگہ پر آیا لیکن اس شخص کو
اپنی نظروں کے حصار میں رکھا جو ایک بار پھر خود سے باتیں کرنے میں مصروف ہو چکا تھا
لیکن اب مسکراہٹ کی جگہ آنسوں لے چکے تھے اور پھر وہ یک دم اٹھا ‘ پھول قبر کے پاس
رکھ کر وہ تقریبا دوڑتا ہوا قبرستان سے باہر نکل گیا
...
رات ہو چکی تھی. بہت دیر وہ اپنے بستر پر لیٹا چھت کو گھورتا
رہا
”عادل
‘عادل ‘ اٹھو ‘ کیوں سارا دن سوںٔے رہتے ہو؟ ... مجھے باہر لے کر جاؤ “
”تنگ
مت کرو ‘میں نہیں اٹھ رہا‘ جاؤ یہاں سے
... “
”تم
میری کوںٔی بات نہیں سنتے“ اس کی آنکھوں میں آنسوں تھے
عادل کو اپنی آنکھیں نم ہوتی محسوس ہوںٔیں. آج پھر وہ اسے
یاد آںٔی تھی. وہ جانتا تھا کہ اب نیند کا آنا ممکن نہیں رہا. بستر سے اٹھنے کے بعد
کچھ دیر وہ کمرے میں چکر کاٹتا رہا پھر کرسی پر جا بیٹھا‘ آنکھیں موندے‘ کرسی کی پشت
پہ سر ٹکاںٔے‘وہ مسلسل کرسی کو ہلا رہا تھا کہ اچانک پاںٔل کی آواز اس کے کانوں میں
پڑی‘ یہ آواز اس کے لیٔے نںٔی نہیں تھی‘ آج اس آواز نے ایک بار پھر اس کے دل پر دستک
دی تھی‘ آواز آہستہ آہستہ اس کے قریب آنے لگی...
”عادل“
اسے لگا کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی ہے.
”کیا
چاہتے ہو‘ میں چلی جاؤں؟؟“ کوںٔی مسلسل اس کے کان میں سرگوشی کرنے میں مصروف تھا
”نہیں“
اس کی آواز اس کے اندر موجود کسی کھاںٔی سےآںٔی تھی
”تو
آنکھیں کھول لو اپنی“
”آنکھیں
کھول لی تو تمہیں محسوس کیسے کروں گا؟“ تنہاںٔی کے اس شہزادے کی آنکھ سے ایک آنسوں
ٹپکا اور گال سے پھسلتا نیچے گر گیا
قدموں کی آہٹ پھر سے اس کے کانوں میں پڑی. اس نے چونک کر
آنکھیں کھول دیں. کمرے میں کوںٔی موجود نہ تھا وہ باہر نکلا اور دروازے کی طرف لپکا
دروازہ بند تھا لیکن وہ ہر چیز کو نظر انداز کرتا دروازہ کھول کر با ہر چلا گیا
ادھر ‘ ادھر گلیوں میں
بھاگتا وہ نہ جانے کس کی تلاش میں تھا. تھک ہار کر جب وہ گھر واپس آیا تو نیند
اس کی آنکھوں پر دستک دے چکی تھی کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند سو گیا
اگلا سارا دن اسی قید میں گزار کر وہ رات کے پہر اپنے کمرے
میں اندھیرا کر کے خود کرسی پہ جا بیٹھا
بہت انتظار کے بعد اٹھا‘ اپنی ڈبیا سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا کہ پاںٔل
کی آواز دوبارہ اس کے کان میں گونجی ...
”آج
آنکھیں کھلی ہیں لیکن میں تمہیں محسوس کر سکتا ہوں“.
”ہاں‘
کر سکتے ہو“ کوںٔی جا کر اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا
”تم
چلی کیوں نہیں جاتی“
”کہاں
؟؟“
”مجھ
سے دور‘ میرے خیالوں سے‘ میرے دل اور دماغ سے دور...
“
”چلی
جاؤں ؟؟“
”جب
تم میری زندگی میں تھی تو میری زندگی میں سکون تھا‘ تم گںٔی ہو تو ساتھ میرا سکون بھی
لے گںٔی ہو“
ایک لمبی خاموشی اس کمرے میں پھیل گںٔی
”میں
نے کل تمہیں بہت ڈھونڈا“ کچھ دیر بعد‘ خاموشی کا تسلسل ٹوٹ گیا
”کدھر
؟؟“
”باہر
گلیوں میں‘ ہر جگہ “
”تمہیں
کیا لگتا ہے‘ تمہیں مجھے گلیوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے؟؟“
قدموں کی آواز اب اس سے دور جانے لگی...
اس نے سگریٹ دوبارہ سے سلگاںٔی‘ دھواں ہوا میں پھیلا اور
تہلیل ہوتا چلا گیا
Comments
Post a Comment