آواز دبانی نہیں ، اُٹھانی ہے
ازقلم:
حرا شاہین
تعلیم
ہر دور کی ضرورت ہے ۔ ہم کسی بھی راہ میں کامیاب
نہیں ہو سکتے جب تک ہمارے پاس علم نہیں ہو گا ۔ جاننے والا اور نہ جاننے والا کبھی
بھی ایک برابر نہیں ہو سکتا تو بلاشبہ علم
ایک بہت ضروری خزانہ ہے ۔
لیکن
آج کل کی تعلیم ہمیں کیا سیکھا رہی ہے اور کیا دیکھا رہی ہے ۔ آپ سب جانتے ہوں گے کچھ
دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک دل دہلا دینے والی خبر گردش میں ہے ۔ اور یہ ہولناک خبر
جس ادارے سے وابستہ ہے وہ ہے:
اسلامیہ
یونیورسٹی بہاولپور ۔۔۔۔۔۔۔
یہ
یونیورسٹی ایک مدرسے کے طور پر قائم کی گئی تھی یہاں صرف دین کی تعلیم دی جاتی تھی
اور پھر اسے کالج اور یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور اب یہ ایشیا کی دوسری بڑی یونیورسٹی
کے طور پر جانی جاتی ہے ۔ تعلیمی اعتبار سے بھی یہ یونیورسٹی سرِ فہرست ہے اور پاکستان کی نامور جامعات میں سے ایک ہے ۔
لیکن
اسلام کے نام سے منسوب اسلامیہ یونیورسٹی میں جو روح کو چیر دینے والا واقعہ وقوع پذیر
ہوا اور اب تک ہر ایک کے علم میں ہو گا میں
اس کا مختصر سا خلاصہ بیان کرتی چلوں ۔
افضل
نوازجو کہ محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر ہے اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ اپنے فرائض منصبی
انجام دینے کیلئے کھڑا ہوتا ہے تبھی ایک سفید کار کو کیمپس کی جانب آتے دیکھتا ہے
۔شک کی بنا پر کار کو روکنا چاہا تو کار رکے بغیر دوسری جانب فرار ہونے کی کوشش میں
نکل پڑتی ہے ۔شک یقین میں بدل گیا۔ افضل نواز اپنے ملازمین کے ہمراہ گاڑی کا پیچھا
کرتا ہے اور گاڑی کو روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
تفتیش
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابوبکر نامی ملزم، نہیں بلکہ مجرم اس یونیورسٹی میں چیف سکیورٹی
افسر کے طور پر تعنیات ہے ۔ اس کی تلاشی لینے ہر اس کے والٹ میں سے جنسی خواہشات کو
ابھارنے والی گولیاں برآمد ہوتی ہیں اور ساتھ ہی کرسٹل آئس نشے کی پڑیاں ملتی ہیں
۔جب اس کا موبائل چیک کیا جاتا ہے تو اس میں سے
نازیبا مواد ،غیر اخلاقی ویڈیوز اور تصاویر موجود ہوتی ہیں ۔اور بے شمار وڈیو
کالز کی ریکارڈنگ جو کہ بلیک میلنگ کیلئے رکھی گئیں تھیں ۔اور یہ ویڈیو یہ تصاویر کسی
اور کی نہیں اسی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بہنوں بیٹیوں کی ہیں ۔ مزید تفتیش سے پتا
چلتا ہے کہ اس گھناونے کھیل میں کچھ اساتذہ اور گرلز ہاسٹل کی وارڈن بھی شامل ہے
۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی
کے وی - سی صاحب تمام واقعے سے لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے من گھڑت اور یونیورسٹی
کی ساخ خراب کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں ۔ لیکن شہد کی بوتل میں شراب بھر دینے سے وہ
شہد نہیں بن جائے گی ۔
اس
دل برداشتہ واقعے کے بعد کس پر اعتبار کیا جائے ۔ اپنی بیٹیوں کو کہاں سے تعلیم کی
دولت سے آراستہ کروایا جائے ۔
اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں
ہے اس سے پہلے کئی اور جگہوں سے ایسے ہولناک واقعات منظر عام پر آئے ہیں ۔
طلباء
اساتذہ کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں ، مریض طبیب کے ہاتھوں محفوظ نہیں اور کمپنی ورکرز
اپنے باس کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں ۔ تو پھر والدین کی اپنی بیٹیوں کی تعلیم اور نوکریوں پر روک ٹوک تو
بنتی ہے نا ۔۔۔یہ سب سن لینے کے بعد کیسے کوئی باپ اپنی بیٹی کو اور کوئی بھائی اپنی بہن کو تعلیم
دلوانے پر راضی ہو گا ۔
اصل
میں بیٹیوں کی تعلیم کی مخالفت کرنے والے جاہل نہیں ہیں ۔ ہمارا نظام جاہل ہے ۔ راہنما
کرسیوں پر بیٹھنے والے جاہل ہیں ۔جن کی بدولت ہر باپ اور ہر بھائی کا دل ڈرتا ہے ۔اگر قطرہ قطرہ مل کے دریا
بنتا ہے تو ایک مچھلی پورے دریا کو گندہ بھی
کر سکتی ہے۔ چند لوگوں کی وجہ سے نقصان پوری قوم کا ہوتا ہے اور یہ چند لوگ ہمارے ہی
معاشرے کے معزز لوگ ہوتے ہیں جن کو ہم اپنا راہنما سمجھتے ہیں مگر وہ تو عزت اور شرافت
کے سانچے میں ڈھلے شیطان ہوتے ہیں ۔ درندہ صفت انسان ہوتے ہیں ۔
والدین اپنی بیٹیوں کو
باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور
اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے وہ اپنی بیٹی کو باہمت ،نڈر اور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں
تو وہ انہیں بولنے کی آزادی کیوں نہیں دیتے ۔انہیں اپنے حق کیلئے لڑنے کی اجازت دیں
تاکہ وہ دوبارا کسی درندگی کی بھینٹ نہ چڑھیں ۔ اپنی عزت کی خاطر ان کی آواز دبا دیں
گے تو ہم کیسے اپنی بہنوں بیٹیوں کو ان کی عصمتوں کی قربانیاں دینے سے روک سکیں گے
۔
اللّٰہ
ہر بہن بیٹی کی آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین
******************
Comments
Post a Comment