ڈاکٹر (خیر الناس)
ازقلم: حرا شاہین
کسی بھی معاشرے میں ڈاکٹر اور معالج کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس دنیا میں ایسا وجود عطا کیا ہے کہ اس میں خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خامیوں اور مجبوریوں کی آمیزش ہے ۔انسان کی طاقت اور قوت ایسی ہے کہ دنیا کی طاقتور سے طاقتور ترین مخلوق بھی اس کی اسیر ہے اور کمزوری اور بے حسی کی یہ انتہا کہ معمولی سے کیڑے مکوڑے اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ایک بالشت بھر سانپ اس کی جان لے سکتا ہے اور بیماریاں اسے آسانی سے پچھاڑ سکتی ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے زہر کے ساتھ ساتھ اس کا تریاق بھی پیدا فرمایا ہے اور بیماریوں کے ساتھ ان کا علاج بھی ۔اور یہ دریافت کرنے کا کام میڈیکل سائنس اور ڈاکٹرز کرتے ہیں۔ بلاشبہ انسانی خدمت کے پہلو میں ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ۔بھوکے کو کھانا کھلانا ، محتاج کو کپڑے دینا ، معذور کے ساتھ ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوقِ خدا کی خدمت کے زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ بیمار ہوتا ہے ۔جب وہ مریض ہو۔ بیماری انسان کو اس حال میں پہنچا دیتی ہے کہ کھانا موجود ہو لیکن کھا نہیں سکتا ، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں لیکن چل نہیں سکتا ، تیمارداروں اور مددگاروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے "۔
اور کون ہے جو انسانوں کیلئے ڈاکٹر اور معالج سے بڑھ کر نافع ہو ۔ اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے طبیب اور معالج کو "خیرالناس" (بہترین انسان) کا ایوارڈ ملا ہے ۔اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے ۔
بلاشبہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے ۔اسی وجہ سے ان کی توقیر و تکریم ہمارا اہم فریضہ ہے ۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علاج سے جلدی افاقہ نہیں ہوا یا کسی مریض کی موت واقع ہوئی تو عوام ڈاکٹر یا معالج سے الجھ جاتی ہے اور بعض دفعہ تو اس کی جان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں ۔ یہ انتہائی غیر سنجیدہ عمل ہے ۔ علاج تو ڈاکٹر کے بس میں ہوتا ہے لیکن صحت و شفا تو اللّٰہ کی مشیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔
۔ اور ہم عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ہم جاہلیت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ،سفاک اور بے رحم ہو جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک ایک ڈاکٹر سے بڑھ کر رحم دل اور حساس کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ وہ ہر روز زندگی اور موت کا کھیل دیکھتا ہے ۔ بہت سوں کو نئی امید دلاتا ہے اور کئی بار لوگوں سے ان کو پیاروں کو چھنتا دیکھتا ہے کیونکہ وہ بھی بے بس ہے ۔
ہمارے اندر قبول کرنے کی صلاحیت اور ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرنا ہونا چاہیے ۔ اگر ہمارا کوئی پیارا ہم سے کسی ہسپتال میں بیماری سے لڑتا ہوا زندگی سے محروم ہو جاتا ہے تو ہم اس کو اللّٰہ کی مرضی سمجھ کے قبول کیوں نہیں کرتے ؟ ہم اسکا زمہ دار ڈاکٹر کو کیوں ٹھہراتے ہیں ؟ در حقیقت ڈاکٹر تو مسیحا ہے ۔
بس اک بات سمجھ لو ۔۔۔۔
۔زندگی کو بچانے کا مکلف ڈاکٹر کو قرار دینا اس پر اس کی صلاحیت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
Comments
Post a Comment