عنوان:
آزمائش
حرا شاہین
ثریا کے شوہر کی جان نشے
کی عادت نے لی ۔ایک بیٹا ہونے کے باوجود بے سہارا تھی۔ اپنا دکھ اپنے اندر ہی دفن کیے
ہوئے تھی یا اک واحد نیم کا درخت اس کے غم کا ساتھی تھا۔تنہائی انسان کو موت سے پہلے
ہی مار دیتی ہے ۔
نیم کا درخت اپنی
پوری قدو قامت کی ساتھ خستہ حال صحن کے دہانے میں موجود تھا۔ زرد پتے ہر جانب بکھرے تھے۔ درخت کے نیچے بان کی چارپائی پر پڑا بےحس و حرکت
وجود کسی مردے کی مانند لگ رہا تھا۔
زندگی اس طرح بھی امتحان لیتی ہے کہ وقت ختم ہو جاتا ہے لیکن آزمائش نہیں۔
ایک غریب لیکن
خوشحال گھر نشے کی بری لت کی نظر ہوا ۔اکبر علی بہت محنتی تھا اپنی بیوی اور بیٹے سے
بہت پیار کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ انکی ہر ضرورت پوری ہو لیکن حالات تھے کہ سنورنتے
ہی نہ تھے ۔بیٹا بھی بڑا ہونے لگا تھا اور ضروریات زندگی بھی بڑھنے لگے تھے ۔کبھی کوئی
دہاڑی لگ جاتی تو چولہا جل جاتا ورنہ پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتا ۔ اکبرعلی حالات سے
تنگ زہنی تناؤ کا شکار ہونے لگااور اس سے فرار اسے نشے کی صورت میں ملتا ۔ ثریا اسے
بہت سمجھاتی لیکن اکبر علی نشے کی زنجیروں میں جکڑ چکا تھا ۔ایک دن ساری رات گھر واپس
نہ آیا۔ ثریا پریشان، اپنے سات سالہ بیٹے حنان کوساتھ لیے اپنے شوہر کو ڈھونڈتی رہی
لیکن اکبر علی کا کچھ سراغ نہ ملا ۔دو دن بعد گاؤں کی پچھلی نہر کے پار مٹی اور غارے
سے لتھڑی اکبر کی لاش ملی۔
نشہ اللّٰہ نے حرام قرار دیا ہے اور جو لوگ اللّٰہ کی
قائم کردہ حدود کو توڑتے ہیں اور اللّٰہ کی نا فرمانی کرتے ہیں تو اللّٰہ ان کا انجام
عبرت ناک کرتا ہے ۔
ثریا نے کب سوچا تھا
کہ زندگی اس طرح سے امتحان لے گی۔ پہلے تو غربت نے کمر توڑ رکھی تھی لیکن اب روح تک
گھائل ہو گئی تھی۔ اللّٰہ کے بعد مرد کا سہارا
عورت کیلئے بہت مضبوط سہارا ہوتا ہے جو اسکی ڈھال بنتا ہے لیکن اسے اب اکیلے ہی حالات
کا سامنا کرنا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو کامیاب بنانا چاہتی تھی اور اس کیلئے ثریا نے ہر ممکن کوشش کی ،لیکن کہتے
ہیں کہ نیک اور فرمانبردار اولاد بھی قسمت سے ملتی ہے اور ثریا کی قسمت نے تو ہمیشہ
ہی اسے مایوس کیا تھا ۔
حنان پڑھائی کے سلسلے
میں شہر جا چکا تھا ، شروع شروع میں تو ہر دو یا تین ماہ بعد ماں سے ملنے آجاتا اور
کچھ روپے پیسے بھی دے جاتا جس سے اسکی دوائیاں آ جاتیں اور زندگی کا پہیہ چلتا جاتا۔
لیکن اب حنان کو گاؤں آئے تین سال گزر چکے تھے ۔ماں ہر روز بیٹے کی راہ تکتی نیم کے
درخت کے نیچے پڑی چارپائی پر لیٹی رہتی اور کئی کئی دن ایسے ہی گزر جاتے لیکن بیٹے
کو نہ آنا تھا ، اور وہ نہیں آیا۔وہ سوچتی کہ کاش اس کے شوہر کو نشے کی لت نہ لگتی،
تو شاید آج وہ تنہا نہ ہوتی۔
****************
Comments
Post a Comment