Meri Maan ke Naam article by Anwar Sultana

میری ماں کے نام

تحریر:انورسلطانہ

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

ویسے تو ماں کے رتبے اور اس کی عظمت کا احاطہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن دنیا بھر میں ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں مئی کے دوسرے ہفتے میں اتوار کے روز ماؤں کا عالمی دن (Mother's Day) منایا جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارا ہر دن، ہر لمحہ، ہر ساعت، ہر گھڑی ماں سے محبت اور اس کے دوپٹےکے کونے میں لگی گرہ میں مقیّد ہے، اور ہم کبھی بھی اس کے التفات سے لمحہ بھر راہ فرار حاصل نہیں کرسکتے۔

وہ ایک ایسی ہستی ہے جو جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو اپنی اولاد کی خوشی مانگنے میں اتنی مشغو ل ہوجاتی ہے کہ اپنے لیے کچھ بھی مانگنا بھول جاتی ہے۔ تاہم، ماؤں کا عالمی دن بھی ہرسال جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن اپنی ماں سے خوب لاڈ پیار کرتے ہیں، انہیں تحائف دیتے ہیں اور ان کے ساتھ بنوائی ہوئی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔

جدید دور کی با ت کریں تو سب سے پہلے مد رز ڈے 1908ء میں اینا جاروِس نے اپنی ماں کی یاد میں گریفٹن، ویسٹ ورجینیا کےاینڈریو میتھڈسٹ چرچ میں منایا، جہاں آج انٹرنیشنل مدرز ڈے کی علامت کے طور پر ایک مزار موجود ہے۔ اینا جاروِس نے امریکا میں مدرز ڈے منانے کی کمپیئن 1905ء میںہی شروع کردی تھی، اسی سال ان کی ماں اینا ریوس کاانتقال ہوا تھا۔ اینا جاروِس امن کی علمبردا ر ایک ایکٹیوسٹ تھیں، جو امریکن سول وار کے دوران زخمی فوجیوں کی تیمار داری اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔

انھوں نے مدرز ڈے ورک کلب بھی قائم کیا تاکہ لوگوں تک صحت عامہ کے مسائل کی آگاہی پہنچا سکیں۔ اینا جاروِس کا مقصد اپنی ماں کو عزت واحترام دلوانا اور کم از کم ایک دن مائوں کے نام کروانا تھا، جو اپنی ساری زندگی بچوں کی پرورش اورانہیں عمدہ شہری بنانے میں تیاگ دیتی ہیں۔ اینا کا یقین تھا کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو آپ کے لیے اس دنیا میں آپ سے زیادہ کوششیں کرتی ہے۔

ہر سال مائوںکاعالمی دن منانے کے لیے مختلف ممالک میں ایک ہی دن مختص نہیں ہے۔ پاکستان اور اٹلی سمیت مختلف ملکوں میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتاہے جبکہ کئی دیگر ممالک میں یہ دن جنوری، مارچ، اکتوبر یا نومبر میں مناکر مائوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ماں کی عظمت واہمیت کو محض ایک دن تک محدود کردیا جائے کیونکہ اس ہستی نے بھی صرف ایک دن ہمار ا خیال نہیں رکھا بلکہ جوان ہونے اور شادی شدہ ہونے کے بعد بھی اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کا خیال رکھتی چلی آتی ہے۔

آئیں اس برس عہد کریں کہ ہم اس عظیم ہستی کی دل و جان سے بھرپور خدمت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جو کچھ انھوں نے ہمارے لیے کیا اس کا کچھ فیصد ہی حق ادا کرسکیں۔ آپ اپنی ماں کو کسی بھی طریقے سے یہ احساس دلانے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں سب سے خاص اور محترم ہستی آپ کی ماں ہی ہیں۔

نپولین کا یہ جملہ’’ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ نسل دوں گا‘‘۔ ماں کی تربیت اولاد کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے، اگر ہمیں نسلوں کو سنوارنا ہے تو آج مستقبل کی ہر ماں کو تعلیم سے استفادہ کرنا ہوگا۔ ماں ہر بچے کی پہلی درسگاہ ہے، جسے بچہ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی پہلو میں سب سے پہلے محسوس کرتا ہے۔ بچہ اس دنیا میں سب سے زیادہ اپنی ماں سے متاثر ہوتا ہے۔ ماں کا اٹھنا، بیٹھا، ہنسنا، بات کرنا، غرض کہ ماں کا تمام تر رویہ بچے کی زندگی پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے، جن کے سبب ماں کی ذمہ داری دُگنی ہوجاتی ہے۔ ماں کی بچے کے لیے کی گئی دیکھ بھال اس کے لیے ڈھال بن جاتی ہے لیکن ماں کی تعلیم اور معاشی کامیابی بچے کا مستقبل بناتی ہے۔

بچے کی تربیت کا عمل اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ماںکا ہر عمل بچے کی تربیت کا پہلا قدم بن جاتا ہے لیکن ایک ناخواندہ یا تعلیم سے محروم ماں تربیت کے بہتر سلیقے سے محروم ہوسکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکتی ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ بچے کی تربیت کے لیے گھر کا ماحول کتنی اہمیت رکھتا ہے اور بچے کی درسی تعلیم کے علاوہ جنسی آگہی سے متعلق تعلیم بھی کتنی ضروری ہے۔

وہ یہ بھی جانتی ہے کہ بچے کے لیے گھر کے پرسکون ماحول کے علاوہ بیرونی ماحول کتنے وقت کے لیے بہترین ہے۔ دوسری جانب ایک پڑھی لکھی ماں معیاری وقت (کوالٹی ٹائم) کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے۔ بچوں کو وقت دینے سے زیادہ والدین کے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ وہ دیے گئے وقت کو کتنا کارآمد بناتے ہیں۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بڑی بڑی مصروف اور عظیم عورتوں نے اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم دے کر ان کی بہتر انداز میں تربیت کی۔

دنیا بھر میں اس وقت نئی نسل میڈیا کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن یہاں بھی ایک تعلیم یافتہ ماں بڑی خوبصورتی کے ساتھ میڈیا کو معلومات اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بنادیتی ہے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے کہ کس میڈیم کا کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے اور بچے کے لیے بہترین اسکرین ٹائم کیا ہوسکتا ہے۔

اگر مائیں پڑھی لکھی، باشعور اور سمجھدار ہوں گی تب ہی ایک معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہوسکتا ہے کیونکہ ایک باشعور عورت ہی وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت درست خطوط پر کر سکتی ہے۔ وہ بچے کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہوئے معاشرے کا مفید شہری بناسکتی ہے۔

 ******************

Comments