موضوع:۔
کچھ لفظ ......
از قلم :۔ عنیشہ شہزادی
سفید
رنگ کے جوڑے کے اوپرسرخ سٹون کا ہلکا سا کام ،سر پر فینسی سرخ اور شیفون دوپٹے کے اندر
سادہ ریشمی اور سفید کپڑے کا حجاب اوڑھے وہ کسی سلطنت کی شہزادی لگ رہی تھی جو ملکہ
بننے جا رہی تھی آج نایاب کا نکاح تھا
ارے
لڑکیوں۔۔۔۔۔دلہن تیار ہوئی کہ نہیں ، بیگم نصرت کمرے میں داخل ہوتے ہی اونچی آواز میں
پوچھنے لگی ۔ایک تو ان کمبخت بچوں نے اتنا شور مچايا ہوا ہے کہ مانو آسمان کو سر پہ
اٹھایا ہو، سمجھ نہیں آتی میری آواز دوسروں تک پہنچ بھی رہی ہے کہ نہیں ۔
جی
ماں جی ۔۔۔ آرہی ہے آپ کی آواز ،
آپی
ہو گئی ہے تیار ۔۔۔ نائلہ نایاب کی چھوٹی بہن ،بیگم نصرت کی لاڈلی ۔۔۔۔ فرمابرداری
والے انداز میں بتانے لگی
ما
شاء اللہ ! "ماں صدقے جاواں میری سونو چن دا ٹکڑا لگ ری ا ے"
بیگم
نصرت بیٹی کو دلہن بنے دیکھتے ہی اپنے پنجابی انداز میں بیٹی کے صدقے واری جا نے لگی
کہ
اچانک باہر سے نایاب کے چچا کی آواز سنائی دی
بھابھی۔۔۔
برات آگی ہے جلدی باہر آجائے ۔
نایاب
کے دل کی دھڑکن کی رفتار مزید تیز ہوئی ۔
کیا
سچ میں نکاح کے کچھ لفظ ہو گئے
اور
اس لڑکی کی زندگی بدل جائے گی
کیا
صرف اس کا سر نام بدلے گا
یہ
ہر رشتہ بدل جائے گا
کیا
ان چند الفاظ کے بعد وہ اس گھر کے لئے پرائی ہو جائے گی
کیا
وہ اس گھر میں اب مہمان بن کے آیا کرے گی
کیا
وہ اُس نئےگھر میں اپنی پوری زندگی بسر کرسکے گی جس میں رہنے والوں کو وہ نہیں جانتی
۔۔۔۔ڈھیروں سوالات ہیں مگروہ یہ سوچنا چاہتی ہے کہ کیا ان تین لفظوں میں اتنی طاقت
ہے کہ ایک اجنبی شخص سے اسے محبت ہو جائے
بیگم نصرت کی آواز تھی کہ
تمام خیالات خاک ہوئے
ارے
لڑکیوں جلدی سے پھول لے کر باہر جاؤ دلہے میاں پہنچ گئے ہیں ۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment