پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے
ٹگے دی ہانڈی گئی تے کتے دی ذات پہچانی گئی
پرانے وقتوں میں لوگ بہت سیانے ہوا کرتے تھے بڑی زیرک نگاہ کے حامل ہوا کرتے تھے ۔پھر یوں ہوا کے گھر لاۓ جانور(کتے) کی نسل کا ادراک کرنے کیلئے انواع و اقسام کے کھانے بناۓ گے اور ہانڈیوں کے ڈھکن ہٹا دیے گے اور اس پے اس کتے کو چھوڑ دیا گیا اب وہ کتا ہر ہانڈی میں منہ مارنے لگا تو اس پہ کیا خوب کہا کہ اس میں اس کتے کا قصور نہیں بلکہ اس کی کمظرف نسل کا ہے ہانڈی ضائع ہو گئی دوبارہ سے بن جائے گی پر اس کتے کی ذات پہچان لی گئی ہے اگر یہ اچھی نسل کا ہوتا تو ہر جگہ منہ نہ مارتا ۔ اب اگر آپکو بھی ایسا لگتا ہے کے آپ نے ایک شخص پر اپنی تمام چاہتیں محبتیں عقیدتیں نچھاور کر دی پر وہ پھر بھی ہمارا نہیں بن سکا پھر بھی بےوفائی کر گیا تو جس کو جگہ جگہ منہ مارنے کی عادت ہو نا اس کا کسی ایک پہ اکتفا نہی ہو سکتا اس میں آپکا یا آپکے جذبات کا قصور نہیں ہے اور نہ ہی اس شخص کا قصور ہے وہ بھی تو مجبور ہے اپنے ہی ہاتھوں کیوں کے عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اب اپ سوچے کے اگر اپ ایک بے قدر اور بےوفا کے ساتھ اتنا مخلص ہو کے رشتہ نبھا سکتے ہیں تو جو اپکے ساتھ مخلص ہو گا اس کے ساتھ اپ کیسا رشتہ نبھا سکتے ہیں رونا دھونا ایک ہی جگہ پڑے رہنا اپکی ذات کو زنگ آلود کر دے گا آپکے آنسوں بہت قیمتی ہیں اپکی ذات بہت قیمتی ہے ان لوگوں پہ ضائع مت کریں جو اپکی ایک نظر کے بھی مستحق نہیں ہیں بلکہ اپنی ذات کو وقف کر دیں ان لوگوں کیلئے جن کیلئے اپکی ایک مسکراھٹ قیمتی متاع کی اہمیت رکھتی ہے اٹھیں کے ایک خوبصورت زندگی اپکی منتظر ہے رشتے کم ہی سہی پر خالص بناۓ اور مخلصانہ نبھاۓ خوبصورت رشتوں کی اساس مخلصی اور احساس پہ ہی قائم ہے خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں
میرے سخت الفاظ اگر کسی کو برے لگے تو معذرت ۔۔
بنت صدیق
Comments
Post a Comment