نام :- عروج چوہدری
عنوان :- لفظ با لفظ
موت اور زندگی دو چیزیں ہیں .موت ہو تو زندگی 'زندگی ہو تو موت. ہر چیز زندگی سے موت اورموت سے زندگی کی طرف سفر کرتی ہے.
خاموشی اور تنہائی چیزوں کو حُسن بخشتی ہے.
کامیاب زندگی کے لئے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے. نصیب العین اور اس کےلیے کام.
نفرت اور غصہ دبانے سے زیادہ طاقت ور ہوتے چلے جاتے ہیں نفرت کا زہریلہ درخت دُشمن کو تو ختم کر دیتا ہے مگر انسان کے کردار میں مستقل خامی پیدا ہو جاتی ہے.
گاؤں ہی کسی تہزیب کی بنیادی اکائی ہوتا ہے گاؤں تباہ ہو جائیں تو کبھی تہذیب زندہ نہ رہے.
بے موقع گفتگو انسان کو لے ڈوبتی ہے.
ہم ایک دوسرے کے ساتھ تو رہتے تو ہیں مگر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.
اگر آپ کو خودپر بھروسہ ہے تو شوٹ کٹ نہ لیں.
اپنے قریب ایسے لوگوں کو رکھیں جو آپ کو بہتر بنا سکیں.
انسان کے زمے اللّٰہ نے محنت لگائی ہے. آپ جتنی محنت کریں گے اتنا ہی پھل ملے گا.
انسان کتنی عجیب مخلوق ہے نہ ہمیشہ قدر کرنے والوں کی نہ قدری کرتا ہے.
انسان ہی ہیں جو گڑھے کھودتے ہیں اور ان میں گرتے رہتے ہیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لئے بھی.
محبوب کا اظہار محبت عورت دل پر لکھتی ہے اولاد کا اظہار محبت روح پر 'پہلا قبر تک جاتا ہے اور دوسرا آسمان تک ساتھ لے کر جاتی ہے.
کبھی کبھار بھوک مر جانے پر بھی انسان زبردستی اسے کھلانے اور جگانے کی کوشش کرتا ہے بس اپنی عزت اور نفس خودداری کے لیے.
ہر راز امانت ہوتا ہے ہربھید وقت پر کُھلتا ہے .
الف ایک سیدھی لائن ہوتی ہے جس کے ایک سرے پر اللہ اور دوسرے سرے پر انسان ہوتا ہے
بعض دفعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آپ تھک جاتے ہیں آپ نے نا جسمانی مشقت کی ہوتی ہے اور نہ ہی ذہنی پھر بھی زندگی بےکار لگتی ہے اور اپنا وجود بوج لگتا ہے .
کبھی کبھار ہم اپنے خونی رشتوں سے مایوس ہوکر ان رشتوں کو ان چہروں میں ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں جو ہمیں پیار اور توجہ دیتے ہیں پتہ نہیں یہ صحیح ہوتا ہے یا غلط.
ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی.
زندگی کے دن گزارنے کے لیے گدھوں کی طرح محنت کرنی پڑتی ہےآسائش نام کی چیز ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی ہمیں اپنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی 24گھنٹے امید اور نا امیدی کے درمیان جھولتے ہوئے'ہماری زندگی میں کچھ بھی سیٹ نہیں ہوتا .
گہرا سمندر اور گہرے الفاظ چہرے کی سطح کو ہمیشہ پرسکون رکھتے ہیں.
اس دور کا سب سے نمایاں رجحان یہ ہے کہ جو تم ہو وہ نظر نہ آو. یہ معاشرے کا دباؤ ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری پر مجبور کرتا ہے . ہم باہر سے بہت ثابت و سالم بشاش نظر آتے ہیں. لیکن اندر سے ریزہ ریزہ اور اذیت زدہ ہوتے ہیں. معلوم نہیں کہ ہم نے معاشرے کے زمانہ دباؤ کو قبول کر رکھا ہے .
Comments
Post a Comment