پاکستان کی سلامتی اور آپریشن ردالفساد
قسط 2
ڈاکٹر بابر جاوید۔
آج صبح سے بہت سارے دوستوں کی فون کالز
آ رہی ہیں جو موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر پریشان ہیں
بظاہر حالات ہی کچھ ایسے ہیں جہاں پر پاکستان
سے محبت کرنے والا ہر شخص بے چین اور مضطرب ہے کہ کہیں ایک بار پھر ملکی خودمختاری
کا سودا نا ہو جائے
ان تمام دوستوں سے بس اتنی سی گزارش ہے
کہ
" آپ
نے گھبرانا نہیں"
آپ کے سامنے کچھ واقعات رکھتا ہوں جس سے
آپ کو اس سارے کھیل کو سمجھنے میں آسانی ہو گی
چھ مارچ کو پاکستانی دفترِ خارجہ کو ایک
دھمکی آمیز خط موصول ہوا، خط کو وزیراعظم اور پھر آرمی چیف اور DGISI سے شئیر کیا گیا۔
وزیراعظم ،آرمی چیف ، DGISI
کی ملاقاتیں شروع ہو گئیں
دوبار کور کمانڈرز میٹنگ بھی ہوئی۔
خط کے بارے میں ان چند لوگوں کے علاوہ
کسی کو پتا نہیں تھا یا پھر دشمن اور وطن کے غداروں کو معلوم تھا۔
7 مارچ
کو تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔
اب کھیل کا میدان سج چکا تھا۔
وزیراعظم اور آرمی چیف خاموش رہے صرف یہ
دیکھنے کے لئے کہ کون کون دشمن کے ساتھ
ڈائریکٹ رابطے میں ہے اور کون انجانے میں
استعمال ہو رہا ہے۔
اسی دوران بات کھلی کے پی ٹی آئی کے کچھ
منحرف ارکان سندھ ہاؤس میں چھپے بیٹھے ہیں، جن کو مجبوراً میڈیا کے سامنے لانا پڑا۔
یہ انجان پیادے تھے۔
23 مارچ
کی پریڈ اور 22 سال بعد OIC کے
اجلاس کا اعلان ہوا۔
بلاول کی للکار آئی ہم OIC کا اجلاس نہیں ہونے دیں گے،
فضل الرحمان بولا ہم 23 مارچ کو اسلام
آباد پر یلغار کردیں گے۔
حکومتی اتحادیوں نے بھی اپنی اصلیت دکھانا
شروع کر دی اور بلیک میلنگ اور لالچ کی انتہا کردی۔
غدار سامنے آنا شروع ہو گئے۔
پھر پاکستانیوں نے دیکھا کہ OIC کا اجلاس بھی ہوا اور 23 مارچ کی شاندار
پریڈ بھی جس میں آرمی آفیسرز کی فیملیز نے پہلی بار کسی وزیراعظم کا کھڑے ہو کر مسلسل
تالیاں بجا کر استقبال کیا۔
وزیراعظم کی واپسی پر آرمی چیف گاڑی تک
چھوڑنے گئے اور سیلوٹ بھی کیا۔
حکومت اور فوج نے اپنی مرضی کا میدان سجا
لیا اب ایک کے بعد ایک کھلاڑی میدان میں اترنا شروع ہوگئے۔
ذہن میں رکھئے گا کہ سپر پاور کی دھمکی
والے خط کے بارے میں صرف غداروں اور رکھوالوں کو خبر ہے مگر سب خاموش ہیں۔
وزیراعظم نے عوامی مہم شروع کی عوام نے
جوق در جوق حصہ لیا۔
ساری دنیا نے دیکھا کہ وزیراعظم عمران
احمد خان نیازی اپنی عوام میں کتنا مقبول ہے۔
یہ جلسے اپوزیشن اور بیرونی دشمن کیلئے
تھے
6 مارچ
سے 27 مارچ تک ان 21 دنوں میں شدید اعصابی جنگ کے دوران اصلی غدار نکل نکل کر سامنے
آنے لگے۔
27 مارچ
کا جلسہ بھی کھیل کا حصہ تھا، جس میں عوامی طاقت کے مظاہرے کے بعد خط لہرایا گیا تاکہ
اب غداروں اور محبِ وطن لوگوں کے درمیان لکیر واضع ہو جاۓ۔
دوستو یاد رکھیں آپ ایک ٹویٹ کرتے ہیں
تو FIA والے
پن لوکیشن پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام آباد میں اتنی ہلچل ہو اور
خفیہ ہاتھوں کو علم نا ہو۔
اسلام آباد میں مارچ کے مہینے میں کون
کس سے چھپ کر ملا ، کتنے پیسے ادھر سے ادھر ہوۓ،
کتنی کالز ملک سے باہر ہوئیں ایک ایک چیز کا ریکارڈ ہے۔
پاکستان کے خلاف سازشی اپنے جال میں آہستہ
آہستہ خود پھنسنے لگے ہیں۔
یہ صرف اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان
کی سلامتی اور خودمختاری کی بھی جنگ ہے اس میں کوئی نیوٹرل نہیں رہ سکتا
نیوٹرل ہونے کا کھیل کھیل کر اصلی غداروں
کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا تھا۔
اب کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا
ہے۔
اسے کہتے ہیں آپریشن
ردالفساد میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں آپریشن شروع ہو چکا ہے۔
سانپ بلوں سے باہر نکل کے سامنے آ چکے
ہیں۔ مارخور نے انہیں باہر نکلنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ نا اب جھپٹ کے ان کو گردن سے
پکڑنا باقی ہے۔
اور یہ عمل آج سے شروع ہو جائے گا۔
یقین رکھیں آپ کا ملک محفوظ ہاتھوں میں
ہے اور محفوظ ہاتھوں میں ہی رہے گا۔
بس آپ نے آخری بال ہونے تک مایوس نہیں
ہونا۔
*************
Comments
Post a Comment