مشاہیر باغبانپورہ لاہور
تحریر و تحقیق.ڈاکٹر بابر جاوید
اجڑے ہوئے لوگوں
سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے
بھی پڑھا کر
لاہور واقع ہی لاہور ہے ۔کچھ لوگ اسے باغوں
کا شہر کہتے ہیں تو وہی کچھ اسے کالجوں کا شہر بھی کہتے ہیں ۔ لاہور ہرطرح سے مشہور
اور دوسرے شہروں سے منفرد شہر ہے چاہے اس کے
باغ ہوں مقبرے ہوں یا پھر قبرستان۔یہاں میں صرف لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں موجود
قبرستانوں کی ہی بات کروں گا ۔لاہور شہر میں آپ کو تقریبا ہر مذہب کی آخری رسومات ادا
کرنے کی جگہیں ملیں گی لاہور میں ایسے قبرستان بھی موجود ہیں جہاں تین منزلہ قبریں
ہیں۔ایسی قبریں بھی ہیں جہاں ایک ہی قبر میں چار چار لوگ ایک ہی خاندان کے مدفون ہیں چند قبروں کے کتبے انہیں دوسری قبروں سے منفرد بناتے ہیں۔کچھ قبریں کئی سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی اصلی حالت میں اور اصلی جگہ پر واقعہ مقام
پر ہی مل جاتی ہیں ۔تو چند قبریں جو چھ سات سال پہلے بنی ہوتی ہیں غائب ہو جاتی ہیں۔شاید
یہ اعزاز بھی لاہور کو حاصل ہے جہاں کئی فرقوں اور کئی ملکوں کے لوگوں کی قبریں موجود ہیں اب تک میں پنجاب کے مختلف علاقوں کے قبرستان
اور مختلف قبریں دیکھ چکا ہوں لیکن اتنی منفرد
اتنی عظیم ہستیوں کی آخری آرام گاہیں شاید ہی کسی دوسرے شہر کے قبرستان میں
واقع ہو۔اس کی وجہ شاید میانی صاحب قبرستان بھی ہو جس سے نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب کا
سب سے بڑا قبرستان کہا جاتا ہے ۔کچھ تاریخ دان تو اسے ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان کہتے
ہیں ۔لاہور میں جہاں آپ کو انسانوں کی قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں پر جانوروں اور پرندوں کی قبریں بھی دیکھنے
کو ملتی ہیں۔جیسے حضرت شاہ کمال کے دربار کے ساتھ والے قبرستان میں ایک خاتون کی قبر
نائلہ چوہدری کے نام سے موجود ہے جس کے کتبے پر اس کے قاتل ڈاکٹر کا نام بھی خاندان
کے افراد نے کتبے پر لکھوا دیا ہے ۔اسی طرح ایک بزرگ کے کتے اور ایک بزرگ کے باز کی
قبر بھی موجود ہے ۔میں یہ مضمون کیونکہ باغبانپورہ کے مشاہیر پر لکھ رہا ہوں تو میری
کوشش ہوگی کہ زیادہ شخصیات کا تعلق باغبانپورہ اور شالیمار کے علاقے سے ہو ۔باغبانپورہ
کے علاقے میں بھی آپ کو بہت سی منفرد قبریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں بلکہ کچھ قبریں اور
قبرستان ایسے بھی ہیں جن کی مثال پورے لاہور میں نہیں ملتی جیسے سرووالا مقبرے میں
موجود بیگم شرف النساء کی قبر لاہور میں موجود قبروں میں سب سے منفرد ہے کیونکہ یہ
قبر اونچائی پر ہے قبر تک رسائی بہت مشکل کام ہے لاہور میں زیادہ تر قبریں زمین میں
ہے یا تہہ خانوں میں مگر یہ قبر کافی اونچائی پر بنائی گئی ہے اور بعد میں مقبرہ کو
چاروں طرف سے بند کر دیا گیا ہے۔بیگم شرف النساء کا تعلق بیگم پورہ کے شاہی خاندان
سے تھا اور آپ کا مقبرہ باغبانپورہ کے علاقے بیگم پورہ میں واقع ہے۔آپ کا تعلق لاہور
کے گورنر نواب زکریا کے خاندان سے تھا۔
اسی طرح پنجاب کے عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ حسین
جو زمانے میں مادھو لال حسین کے نام سے مشہور ہیں کا دربار بھی باغبانپورہ کے علاقے
میں موجود ہے۔ حضرت شاہ حسین کے دربار میں حضرت شاہ حسین اور مادھو لال حسین کی قبریں
ساتھ ساتھ ہیں۔آپ کو پنجابی ادب کی صنف کافی
کا موڈھی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ 1539 عیسوی بمطابق 945ہجری کو اندرون ٹکسالی دروازے لاہور
میں پیدا ہوئے ۔ آپ لوگوں میں شاہ حسین ،لال حسین، مادھو لال حسین کے نام سے مشہور
ہیں ۔ہر سال مارچ کے مہینے میں آپ کا عرس منایا جاتا ہے پوری دنیا سے عقیدت مند حاضری
دیتے ہیں اور دربار میں چراغاں کرتے ہیں ۔آپ کا عرس مبارک لوگوں میں میلہ چراغاں اور
میلہ شالامار کے نام سے مشہور ہے آپ کا مزار شالیمار کالج سے پیدل پانچ منٹ کی دوری
پر واقع ہے ۔حضرت شاہ حسین 1599کو فوت ہوئے ۔ پہلے پہل آپ کو شاہدرہ میں دفن کیا گیا
مگر ہر سال سیلاب آنے کی وجہ سے آپ کو باغبانپورہ کے علاقے میں دفن کیا گیا ۔
ربا میرے حال دا محرم تُوں
اندر توں ہیں باہر توں ہیں ،روم روم وچ توں
توں ہی تانا توں ہی بانا ،سبھ کجھ میراتوں
کہے حسین فقیر نمانا ، میں نا ہیں سبھ توں
پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر جنہیں عوامی
شاعر بھی کہا جاتا ہے اُستاد دامن کی آخری آرام گاہ بھی مادھو لال حسین کے دربار کے
ساتھ والے قبرستان میں واقع ہے۔جیسے ہی آپ دربار شریف سے باہر نکلتے ہیں سامنے استاد
دامن کی آخری آرام گاہ ہے۔ استاد دامن کا اصل نام چرغ دین تھا ۔ آپ 1909 کو کوچہ ڈوگراں
چوک مستی لاہور میں میرا بخش کے گھر پیدا ہوئے آپ نے ساری زندگی غریب عوام کے حقوق
کی بات کی ۔آپ کی شاعری معاشرے میں بہتری لانے کے لئے اور عوام کی زبان میں عوام کی
امنگوں کی ترجمان تھی۔شاید اس لیے ہی استاد دامن کو عوامی شاعر کہا جاتا تھا۔ آپ 3دسمبر
1984 کو لاہور میں فوت ہوئے آپ کو خصرت شاہ حسین کے ساتھ والے قبرستان میں سپردِ خاک
کیا گیا ۔ آپ کی قبر پکی ہے اور سراہنے کتبہ لگا ہوا ہے اور اوپر لال رنگ کی لکھائی
ہوئی ہے۔
شاعر
مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی پہلی بیگم کریم بی بی کی قبر بھی باغبانپورہ
کے علاقے گھاس منڈی سے تھوڑا آگے کراؤن شادی ہال کے سامنے والے خافظ پورہ قبرستان میں
واقع ہے۔کریم بی بی علامہ اقبال کی پہلی بیوی تھی ان سے علامہ اقبال کی شادی 5 مئی
1893 کو ہوئی . کریم بی بی سے علامہ اقبال کے دو بچے معراج بیگم اور آفتاب اقبال تھے۔معراج
بیگم کی قبر سیالکوٹ اور آفتاب اقبال کی قبر کراچی میں واقع ہے ہے کریم بی بی کا تعلق
گجرات کے ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا کریم
بی بی 74 برس کی عمر میں 28 فروری
1947 کو لاہور میں وفات پاگئیں اور آپ کی قبر باغبانپورہ کے علاقے میں واقع ہے ۔
اسی طرح ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے صاحبزادے
جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کی آخری آرام گاہ بھی باغبانپورہ کے علاقے بیگم پورہ میں واقع ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال 5 اکتوبر
1924 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال ایم اے انگریزی ایم اے فلاسفی اور
بارایٹ لا تھے۔ڈاکٹر جاوید اقبال 1882 سے 1986 تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال سینٹ کے بھی رکن رہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ اقبال کی اہلیہ سردار
بیگم میں سے تھے سردار بیگم علامہ محمد اقبال کی تیسری بیگم تھی کچھ لوگ دوسری بیگم
بھی کہتے ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال کا انتقال 3 اکتوبر 2015 کو ہوا آپ کو آپ کی وصیت کے
مطابق آپ کے سسرال کے قبرستان واقع بیگم پورہ حضرت ایشاں کے دربار کے ساتھ احاطے میں
دفن کیا گیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی قبر پکی ہے ۔ آپ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بھی جسٹس
رہے ۔ آپ کے دو بیٹے منیب اقبال اور ولید اقبال ہیں ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی بیگم بھی
جسٹس تھیں ۔جسٹس ناصرہ جاوید۔۔۔۔
*************
Comments
Post a Comment