Doston ke peghamat kahan ho article by Dr. Babar Javed

پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا سے غائب تھا تو چند دوستوں کے پیغامات ملے کہ بھائی کہاں ہو

ڈاکٹر بابر جاوید۔

تو واقعہ کچھ ایسے ہے کہ نا اہل اور نالائق عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے اگلے روز کسی کام سے گھر سے باہر نکلا خیال نہیں رہا کہ تو دودھ اور شہد کی جو نہریں پچھلے تین سال سے خشک پڑی تھیں وہ دوبارہ جاری ہو چکی ہونگی اور اسی بے خیالی میں ان میں سے ایک نہر میں گر پڑا۔

بچنے کے امکانات بہت کم تھے لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں ایک بہتی ہوئ لکڑی ہاتھ میں آ گئ تو اسے تھام لیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب کوئ آ کے بچائے گا۔ دودھ اور شہد کی نہر میں بہتے بہتے ملک کے کچھ حصوں کا مفت میں چکر لگانے کا موقع مل گیا اور بہت دلفریب مناظر دیکھنے کو ملے۔

ایک بازار کے پاس سے بہتا ہوا جا رہا تھا کہ دکانوں پر لگے اشیا خورد نوش کی قیمتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔

چینی 30 روپے

آٹا 20 روپے

گھی 15 روپے اضافے کے ساتھ دیکھ کر خوش ہوا کہ چلو اب عوام کو وہ ریلیف تو مل رہا ہے نا جس کا تین سال سے انتظار تھا۔

پھر یہ بھی پتا چلا کہ بھکاری اعظم صاحب نے پچھلے دور میں رمضان پیکج میں ملنے والے پانچ کلو آٹے کی قیمت بھی 375 سے کم کر کے 400 روپے کر دی ہے۔

اور تو اور ڈالر بھی 181 سے سستا ہو کر 191 پے پہنچ چکا تھا۔

کچھ مزید آگے بڑھا تو نو منتخب وزیر اعظم کی تین رہائشگاہوں کے باہر پولیس اور رینجرز کو تعینات ہوتے دیکھ کر تسلی ہوئ کہ اتنے سستے میں ملنے والے غیر ملکی طاقتوں کے بھاڑے کے ٹٹووں کی حفاظت کا مناسب انتظام موجود ہے۔

کچھ ہی فاصلے پر بھکاری ڈھول کی تھاپ پر محو رقص نظر آئے تو پتا چلا کہ اپنی برادری کی حکومت آنے کی خوشی میں جشن منا رہے ہیں۔

اچانک ایک بھنور میں پھنس کے ایک زیلی نہر میں جا پہنچا جو کہ ایوان اقتدار کے پاس سے گزر رہی تھی تو دیکھا نو منتخب کابینہ کی حلف برداری ہو رہی ہے اور ماشااللہ سے 60 فیصد کابینہ کرپشن، منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے مقدمات میں ضمانتوں پر رہا مجرموں پر مشتمل ہے۔

ایک ہوائ اڈے کے باہر سے گزر ہوا پتا چلا کہ پچھلے تین سال ملک کو آئ ایم ایف کے پاس گروی رکھوانے کے خلاف جدوجہد کرنے والی جماعتوں کے نو منتخب وزیر خزانہ اسی آئ ایم ایف کے خلاف جہاد کرنے امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔

وہیں کچھ چہل پہل معمول سے زیادہ نظر آئ تو پتہ چلا کہ پچھلے تین سال سے خانہ کعبہ کی زیارت سے محروم غریب مسکین لاچار قسم کے اسی سے زائد افراد کی سرکاری خرچ پر حجاز مقدس روانگی تیار ہے ملک کی حکومت پر قابض ابلیس کی مجلس شوری کا ہنگامی اجلاس جمرات میں منعقد ہونے کی بھی شنید ہے۔

کسی زرعی علاقے میں نہر سے بہتا ہوا گزر رہا تھا تو ایک جگہ ایک مجمع نظر آیا اور لوگ ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگا رہے تھے۔ پہلے میں تو میں سمجھا ملک کی اہک نامی گرامی دین فروش سیاسی شخصیت کے حق مین کوئ ریلی ہو رہی ہے لیکن پھر پتا چلا کہ اصلی ڈیزل کی بھی نہریں بہنے لگ پڑی ہیں اور کسان خوشی سے ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگا رہے ہیں۔

ایک جگہ کچھ لوگ فارغ بیٹھے مکھیاں مارتے نظر آئے تو پتا چلا کہ یہ وہ صحافی، تجزیہ نگار اور فیس بکی مجاہدین ہیں جو ایک مہینہ پہلے تک پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر پیٹرول بم، بجلی کی قیمت بڑھنے پر 10000 وولٹ جھٹکا اور آئ ایم سے قرض لینےکو ملک کو گروی رکھوانے سے تشبیہ دیتے نظر آتے تھے اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اپنی غیرت کے نیپال چلے جانے کی وجہ سے آجکل فارغ ہیں لہذا مکھیوں کی آبادی کم کرنے میں مشغول ہیں۔

ایسے ہی بہتے بہتے اچانک ایک جگہ دودھ اور شہد کا بہاو کچھ کم ہوا تو نہر سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔ باہر نکلنے کی مسلسل تگ و دو کے بعد تھک چکا تھا تو کچھ دیر سستانے کے لیئے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ کیا ہوا اگر ملک میں جدی پشتی نسلی چوروں اور درندوں کی حکومت آ گئ ہے۔ اور کیا فرق پڑتا ہے اگر ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے نام پر ایک مکروہ نظام ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں تو دوبارہ چل پڑی ہیں۔ یہی سوچتے ہوے واپس گھر پہنچا اور سوچا تھوڑی دیر سو جاوں تو بجلی چلی گئ۔

*************

Comments