Article by Dr. Babar Javed

اگر نیچے دی گئی تحریر میں کوئی کمی بیشی ہے تو ضرور آگاہ کریں۔

ڈاکٹر بابر جاوید۔

ہر دلعزیز لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو عوامی جلسوں میں نواب زادہ نصراللہ خان کو "حقہ ٹوپی"، اصغر خان کو "آلو" اور ائیرمارشل نور خان کو "ٹماٹر" کہہ کر پکارتے تھے۔ مفتی محمود کو وہ جو کہتے تھے، وہ میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔

1988 کی الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ ن کی طرف سے بینظیر اور نصرت بھٹو کی فحش تصاویر ہیلی کاپٹرز کے ذریعے حلقوں میں گرائی گئیں۔

بے نظیر بھٹو جب 1993 میں وزیر اعظم بن کر پیلے رنگ کے لباس میں اسمبلی میں آئیں تو نواز شریف نے حقارت سے "ٹیکسی" کہا اور ن لیگیوں نے اونچی آواز سے اس لفظ کی ہوٹنگ شروع کر دی، یہاں تک کہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

جب زرداری جیل میں تھا تو بینظیر ایک دفعہ ان سے ملاقات کے لئے گئیں۔ اس دن بھی انہوں نے پیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ نون لیگ والوں نے پیلی ٹیکسی کہہ کر پکارا۔ اور اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر اسی نام کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔

بینظیر نے ایک دفعہ اسمبلی میں کسی اعتراض کے جواب میں کہا کہ "مصروفیت کی وجہ سے میری ایک ٹانگ کراچی اور دوسری ٹانگ اسلام آباد میں" اس پر ایک نون لیگی وزیر نے فقرہ کسا کہ "ملتان والوں کی تو پھر موج رہتی ہوگی"۔ یہ سن کر ن لیگ کے اراکین نے دل کھول کر ڈیسک بجائے اور بینظیر باقاعدہ آنسوؤں سے روتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں آ گئیں۔

بینظیر نے اپنے دور میں اتفاق فاؤنڈری کے سکریپ امپورٹ پر ڈیوٹی لگا دی۔ جواب جب نوازشریف کی حکومت آئی تواس نےزرداری کو جیل میں ڈال دیا۔ بینظیر نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ نوازشریف کے بس میں ہو تو یہ میرے بچوں سے دودھ بھی چھین لے۔ جواب میں ن لیگ کے ایک وزیر نے کہا، بی بی تم نے نوازشریف کا لوہا پکڑا تھا، اب نوازشریف تمہارا دودھ پکڑرہا ہے،گھبراؤمت۔

اس پر محترمہ کی کیا حالت ہوئی ہو گی، یہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

جناب زرداری صاحب شریف برادران کو چور، ڈاکو، لٹیرے، درندے، دھرتی کا ناسور اور رائے ونڈ کا مجیب الرحمٰن کہا کرتے تھے۔

2009 میں جب تحریک انصاف محض ایک تانگہ پارٹی تھی، ان دنوں شہباز شریف سرعام زرداری کا پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی دھمکیاں لگایا کرتے تھے۔ عمران خان کی سیاسی پوزیشن بہتر ہوتے ہی ان کے لئے جو القاب استعمال کئے جانے لگے، ان میں سے چند ایک میں یہاں لکھ دیتا ہوں۔

کوکینی، زانی، لونڈے باز، نشئی، بدکردار، نااہل، نالائق، پاگل، فتنہ، ناسور، یہودی ایجنٹ۔

عمران خان کے جلسوں میں پارٹی ترانوں پر خواتین کے جھنڈے لہرانے کے لئے "مجرے" کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ہماری ان ماوں بیٹیوں کو "فاحشہ" اور "کنجریاں" تک بھی کہا گیا۔

فضل الرحمن بھی تحریک انصاف کی خواتین کے متعلق نازیبا گفتگو کرتا رہا ہے۔

خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو اسمبلی میں ٹریکٹر ٹرالی پکارا گیا۔ اور پٹواری مزید ناموں سے بھی پکارتے رہے۔

عابد شیر علی کی زبان سے سب واقف ہیں۔ جو اب بھاگ کر لندن میں بیٹھا ہے۔

طلال چوہدری کی سٹیج پر سرعام نازیبا حرکات اور خواتین سے متعلق فحش گفتگو سے پوری دنیا واقف ہے۔

جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہنوں کے حوالے سے بدزبانی کی۔

رانا ثنا جو گفتگو کرتا ہے، اس سے سب واقف ہیں۔

عطا الحق قاسمی کے ذریعے ریحام خان کے نام سے ایک غلیظ سوچوں پر مبنی کتاب لکھ کر عمران خان کی کردار کشی کی کوشش کی گئی۔

مریم نواز ججوں سے متعلق آڈیوز اور ویڈیوز ریلیز کرکے ان پر ڈھیروں پریس کانفرنسز کر چکی ہے۔

ہماری ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی لیڈر پر بلاسفیمی کے مقدمے درج ہو رہے ہیں۔آنے والے دنوں میں کچھ فیک آڈیو وڈیوز بھی آئیں گی۔عمران خان کی پبلک سپورٹ کو کم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جائے گا۔بہت کچھ اور بھی ہے، لیکن میرے خیال میں اصل پوائنٹ کو سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے۔

آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سیاست میں بدزبانی کا کلچر عمران خان نے متعارف کروایا ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ہماری سیاست آلودہ ہو چکی ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے پاکستانی تاریخ میں محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد اگر کسی کی بدترین کردار کشی اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہے تو وہ عمران خان ہے۔

اور اس کے پیچھے کن لوگوں کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے وہ اوپر پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو ہی چکا ہو گا۔ اور آئندہ بھی جب تک عمران خان ان کی سیاست کے لئے خطرہ ہے، یہ لوگ یہی سب کچھ کرتے رہیں گے، کیونکہ پروپیگنڈا مافیاز کا سب سے کارآمد ہتھیار ہوتا ہے۔

آخری بات یہ کہ میں نے یہ سب خود پر جبر کر کے آپ کو بتایا ہے۔ میں اس گندگی میں خود کو شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ہماری بھولی بھالی اور کمزور یادداشت کی مالک عوام کو حقیقت سے روشناس کرانا بھی ضروری تھا۔

ایک دن سینیٹ میں مولانا سمیع الحق نے شریعت بل پر دھواں دھار تقریر کی اور نوازشریف کی حکومت گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے آئی جے آئی سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔

اگلے دن ملک کے ایک بڑے قومی اخبار کے فرنٹ پیج پر ایک خبر چھپ گئی جس میں اسلام آباد کی رہائشی " میڈم طاہرہ " کا انٹرویو چھپا تھا جو اسلام آباد میں ایک قحبہ خانہ یا عیاشی کا اڈا چلاتی تھی۔

میڈم طاہرہ نے اپنے انٹرویو میں دھانسو قسم کے انکشافات کر ڈالے۔ اس انٹرویو میں میڈم طاہرہ نے ایک طرف بہت سے سیاستدانوں کا نام لئے بغیر انہیں اپنے " مستقل گاہک " قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ مولانا سمیع الحق اس کے مستقل گاہکوں میں سے ایک ہیں اور ' مردانہ قوت ' سے مالا مال ہیں۔

میڈم طاہرہ نے یہ بھی بتایا کہ مولانا سمیع الحق جنسی عمل کے دوران ایک " خاص " پوزیشن پسند کرتے ہیں جس کیلئے اس اخبار نے " سینڈوچ " کی اصطلاح استعمال کی اور بعد میں مولانا کیلئے ' سیمی سینڈوچ ' کا لقب بھی استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔

اس انٹرویو نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔

انٹرویو میں تفصیلات کو کچھ ایسے ڈرامائی طریقے سے بیان کیا گیا کہ عام شخص کو لگا کہ یہ سب باتیں درست ہوں گی۔ مولانا سمیع الحق پر چاروں طرف سے یلغار ہونا شروع ہو گئی اور انہیں مجبوراً سینیٹ میں آ کر روتے ہوئے حلف اٹھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلانا پڑا لیکن انگریزی محاورے کے مطابق " نقصان ہو چکا تھا "۔

اگلے کچھ عرصے بعد مولانا نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا اور اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سیاست کو خیر باد کہہ کر مدارس کی مینجمنٹ پر فوکس شروع کر دیا اور یوں نواز شریف پر شریعت بل لانے کا دباؤ ختم ہو گیا۔

وہ میڈم طاہرہ کون تھی، کہاں سے آئی، کہاں گئی، کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ اس کے اتنے بڑے انکشاف کے بعد اس کے مبینہ عیاشی کے اڈے کے خلاف کیا کاروائی ہوئی، اس کا بھی کچھ علم نہیں۔

جاننا چاہیں گے کہ میڈم طاہرہ کا انٹرویو کس اخبار میں چھپا تھا ؟

یہ عظیم سعادت میر شکیل الرحمان کے اخبار ' دی نیوز ' کو میسر آئی اور جس ٹیم نے اس انٹرویو کا انتظام کیا، اس کی قیادت کامران خان کر رہا تھا۔

مخالفین کی کردار کشی کے زریعے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل نواز شریف کا ایک پرانا حربہ رہا ہے، وہ چاہے بینظیر اور نصرت بھٹو کی جعلی تصاویر ہوں، سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا انٹرویو ہو، 1997 میں جمائما کے خلاف 397 ٹائلوں کی سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ ہو یا پھر عائشہ گلالئی کی صورت میں عمران خان پر گندے میسجز بھیجنے کے الزامات ہوں، نواز شریف کا طریقہ واردات ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔

پتہ نہیں نواز شریف کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی یا اس کی جینز میں ہی ایسی حرکات شامل ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی تو وجہ ہوگی جو اسے انسانیت سے نیچے گرنے پر مجبور کر دیتی ہے!!!

وسعت اللہ خان

بی بی سی لندن

‏سائنس نے تیس سالوں میں، فقط اتنی ترقی کی ہے

وہ فوٹو گرایا کرتا تھا یہ ویڈیو پھیلایا کرتی ہے

وہ دور تھا فوٹو شاپوں کا یہ دور ہے ڈیپ فیکوں کا

وہ چہرے لگایا کرتا تھا یہ جسم بدلایا کرتی ہے

اگر اس تحریر کو پڑھ کر آپ کو اچھا نہیں لگا، یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں۔

Comments