اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ڈاکٹر بابر جاوید
سیدنا
حضرت علی ؓ سے کسی نے پوچھا انسان کتنا مختار اور کتنا مجبور ہے۔سیدنا حیدرکرارؓ نے
اسے ایک پائوں اٹھانے کا کہا، جب اس نے پائوں اٹھالیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا اب دوسرا
پائوں اٹھائو۔ لیکن کیسے ممکن تھا ،بس سمجھ لیں یہی بے بسی اورلاچاری ہے۔یہ روایت اس
لیے بیان کی ہے کیوں کہ اس کے ساتھ میری تازہ ترین کہانی جڑی ہے۔
کل
جمعرات تھی اور میری چھٹی تھی،ہمارے گھر ایک بیوہ خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ کام کرنے
آتی ہیں۔ان کے چار بچے ہیں،شوہر کے انتقال کی وجہ سے اپنے گھر کا نظام چلانے کے لیے
انہیں محنت مزوری کرنا پڑتی ہے۔وہ چار گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں۔ہمارے ہاں وہ
چار برس سے کام کر رہی ہیں ۔ان چار سالوں میں انہیں کبھی فالتو بولتے نہیں دیکھا گیا،نہایت
ڈسپلن سے اپنا کام کیا اور چلے گئیں۔انہوں نے
اپنی طے شدہ تنخواہ کے علاوہ کبھی کسی
چیز کی فرمائش یا مطالبہ نہیں کیا۔امی اپنی طرف سے کچھ دے دیں تو وہ شکریہ کے ساتھ لے جاتیں،کل جب وہ کام کرنے آئیں تو ایسے
لگتا تھا جیسے روئی ہوں، آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ کچھ مسئلہ درپیش ہے۔میری
امی نے پوچھا ، روبینہ ،کیا بات ہے ،آج آپ کچھ پریشان سی لگ رہی ہیں،جواب میں بولی
کچھ نہیں باجی،میں ٹھیک ہوں۔امی نے پھر اصرار کیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں،انہوں
نے بتایا کہ باجی کرسمس سر پر ہے اور دونوں چھوٹے بچے نئے کپڑوں کی ضد کر رہے ہیں۔صبح
کام کے لیے نکل رہی تھی کہ بچوں نے پھرضد شروع
کردی،چھوٹا بیٹا،چار سال کا ہے،کہنے لگا،میرے ابا ہوتے تو میں آپ کو کبھی نہ کہتا۔باجی
،میں ان کی روٹی پوری کروں کہ فرمائشیں۔میں ان کی ساری باتیں سن رہا تھا،امی نے اپنی
الماری سے دو سوٹ نکالے،ایک پرانی بیڈ شیٹ اور اپنی ایک گرم شال شاپر میں ڈال کرانہیں
پکڑا دی،میں نے امی کو بلوا کر کچھ نقدی دی کہ یہ روپے انہیں دے دیں تا کہ وہ اپنے
بچوں کے لیے کپڑے خرید سکیں اور جو پیسے بچ جائیں ،اس سے کرسمس پر گھر میں اچھے کھانے
پکا کر اپنے بچوں کو کھلا دیں۔ بعد میں امی
نے بتایا کہ جب روبینہ وہ روپے پکڑ رہی تھیں تو فرط جذبات سے ان کے ہاتھ کانپ
رہے تھے۔
اس
پوسٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانیت مذہب سے ماروا ہے،اس کا احترام اور خدمت ہم سب
پر واجب ہے،کرسمس کے موقع پر اگر آپ کے آس پاس کوئی کرسچین ہیں تو ان کی مدد فرمائیں
تا کہ وہ اپنا مذہبی تہوار اچھے سے منا سکیں۔ایک تجویز ہے کہ میری طرح آپ بھی اپنے
صاحب حیثیت دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ایک فنڈ قائم کر دیں جس میں سب اپنی
اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالیں اور آپ اس فنڈ سے ضرورت مند لوگوں کی مدد فرمائیں۔
شکریہ۔
************
Comments
Post a Comment