بدلتے موسم
اماں کہتیں،''پنکھا چلا کر نہ سویا کر،
موسم بدل رہا ہے، بیمار پڑ جائے گا''، اور وہ لحاف کے اندر منہ کیے جواب دیتا،
'' اماں مجھے گرمی لگتی ہے، پنکھے چلائے بغیر
میں نہ سو سکوں''۔
''میں
تو اور کچھ نہ کہتی، تیرے بھلے کیلیے کہا کہ رات کو سردی لگ گئ تو بیمار ہوجائے گا''۔
یہ کہتے ہوئے اماں چل دیتیں۔ وہ اٹھتا، پنکھے کی رفتار ذرا اور بڑھا دیتا، زرد بلب
کا بٹن ٹک سے بند کرتا اور دوبارہ بستر پر لیٹ کر لحاف کھینچ لیتا۔ رفتار بڑھنے کے
ساتھ پنکھے کی آواز بھی بدل جاتی اور گھڑ گھڑ کی آواز کمرے میں پھیل جاتی۔
اسے یہ آواز پسند تھی،ردھم میں چلتی پنکھے
کی گھڑ گھڑ کو سنتے اسے جلد ہی نیند آجاتی تھی۔
اسے
بدلتے موسم بھی پسند تھے، بدلتے رنگ بھی، پر ہاں، بدلتے لوگوں سے اسکی ایک نہ بنتی۔۔۔
یوں تو بدلتے موسم میں پنکھے کی ضرورت
نہ تھی پر کہتا، '' اماں، گرمیوں میں تو ہمیشہ اس ظالم پنکھے کی گرم ہوا ہی نصیب ہوتی
ہے، اب تو ٹھنڈک محسوس کرلوں''۔
رات نجانے کس پہر آنکھ کھلتی تو محسوس
ہوتا پنکھے کی رفتار قدرے آہستہ ہوچکی ہے اور اس کے جسم پر لحاف کی جگہ ایک گرم کمبل
موجود ہے۔ اسے حیرت نہ ہوتی، اسے خبر تھی کہ اماں کہ علاوہ ایسا کرنے والا کوئ نہیں
ہوسکتا۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے زیر لب مسکراتا اور پاوں کمبل کے اندر کرلیتا۔ ہاں ایسا
کرنے سے پہلے وہ اٹھ کر پنکھے کی رفتار دوبارہ بڑھانا نہ بھولتا۔
سویر ناشتے پر اماں ناراضگی سے کہتیں،''
رات بھی تو سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، کیسے سمٹا پڑا تھا تب میں نے تیرے اوپر کمبل ڈال
کر پنکھے کی رفتار آہستہ کی۔ دیکھ پتر کبھی میری بھی سن لیا کر''۔ آخری جملہ کہتے ہوئے
اماں کی آواز میں مامتا کی مٹھاس بھر آتی
''اماں
تم سو جایا کرو نا، میرا لیے کاہے کو جاگتی ہو''۔وہ اماں کو تنگ کرنے کیلیے کہ دیتا
''لے
سو جاؤں، کیسے سو جاؤں، تو ادھر سردی سے ٹھٹھڑتا رہے اور میں یہاں سکون سےسو جاوں''۔
''اچھا
اماں آج پنکھا بند کروں گا''۔ وہ بات ٹالتے ہوئے کہتا
''ہاں
جانتی ہوں تجھے، کہتا کچھ ہے کرتا کچھ اور ہے''۔ اماں کی ناراضگی برقرار رہتی۔ وہ مسکراتے
ہوئے اماں کا ہاتھ چومتا اور اٹھ جاتا۔
یوں بدلتے موسم کے دن گزرتے۔ نہ وہ پنکھے
کی رفتار کم کرنا بھولتا اور نہ اماں رات اٹھنا بھولتیں۔ کئ برس سب کچھ معمول کے مطابق
چلتا رہا، لیکن اس بار بدلتے موسم میں اچانک
وہ معمول بدل گیا۔ اس بار اس نے کسی کے کہے بنا ہی پنکھا بند کر دیا اور پتلے لحاف
کے بجائے دبیز کمبل اوڑھ لیا۔ باہر موسم تو ویسے ہی بدل رہا تھا پر اسے لگا جیسے اس
بار گرمی کے بعد یکدم سخت سردی شروع ہوگئ ہے۔ باہر موسم تو ویسے ہی بدل رہا تھا پر
اس کے اندر کے سارے موسم بدل چکے تھے، سارے موسم!
اس بار سب کچھ تھا پر اماں نہ رہی تھیں۔
****************
Comments
Post a Comment