Rishta bazar by Nimra Auzgul

رشتہ بازار

نمرہ اوزگل

امی ی ی ی امی! بال لہراتی، ہاتھ جھلاتی، شور مچاتی، اچھلتی ہوئی میں گھر کے اندر داخل ہورہی تھی ۔

کیا مسئلہ ہے کبھی ٹِک کے بھی کھڑی ہوجایا کرو اور شور کم مچایا کرو ،کیا بات ہے؟ امی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی۔

بھوک لگی ہے، کیا پکایا ہے؟ میں ہنڈیا میں جھانک رہی تھی۔

کیوں تمہاری سہیلی نے کھانا نہیں پوچھا تمہیں؟ امی نے ایک اور طنز کا تیر مارا جسے میں نے بخوبی اگنور کر دیا۔

اوووہ!  قیمہ واہ بھئی آج تو لگتا ہے چھوٹی عید سے پہلے ہی بڑی عید آگئی ہے۔ منہ میں پانی آنے لگا تھا۔

یہ تمہارے لیے نہیں ہے، تمہاری پھپھیاں آئیں ہیں ان کے لیے ہے، فریج میں کل کی دال پڑی ہے وہ کھاؤ تم۔ایسا دل توڑا تھا کہ منہ میں امڈتا سارا پانی ریورس ہوتے لاوے کی طرح واپس چلا گیا۔

ایک تو ہماری ماؤں کی کفایت شعاری پرانا سالن جب تک ختم نہیں ہوگا نئے کو ہاتھ نہیں لگانا اور اگر نیا سالن مہمانوں کے لیے بنا ہے پھر تو سوچنا بھی نا۔اب یہ کیا منطق ہوئی بھئی، اچھا خاصہ قیمے والا منہ بن گیا تھااور ملی کیا باسی دال۔ صحیح کہتے ہیں "مسکین" صاحب چپکے چپکے ڈرامے میں "گھر دا پیر چُل دا وٹا"منہ بسورتے سوچ رہی تھی او ر باہر چلی آئی کہ پھپھیوں کو سلام ہی کرلوں کہیں یہ بھی تانا نہ بن جائے کہ نمرہ میڈم اتنی بڑی ہوگئی ہیں اونٹنی جتنا قد نکال لیا ہے لیکن تمیز ٹکے کی نہیں ہے، سکھایا ہی نہیں کسی نے کہ پھپھیوں کو سلام ہی کرلے۔

السلام علیکم پھپھووووو! گرم جوشی سے باآوازِبلند سلام جھاڑا تاکہ کسی کا کوئی گلہ نہ رہ جائے اور دادی اماں کے پاس بیٹھنے ہی لگی تھی کہ

وعلیکم السلام! آجا مری دھی رانی کیسی ہے؟

ادھر آ میرے پاس آ، میری بچی کیا حال ہے؟

چھوڑ تُو اس کو آجا میرے پاس آجا، کیا حال بنایا ہوا ہے، کتنی دبلی پتلی ہو گئ ہے کچھ کھاتی پیتی نہیں کیا، تیری ماں تیرا خیال ہی نہیں رکھتی نِری پھوہڑ ہے تیری ماں۔ایک پھپھی اپنی طرف تو دوسری اپنی طرف کھینچ رہی تھی مجھے تو ان کے ایسے مزاج سمجھ ہی نہیں آرہے تھے۔ نا سمجھی سے سب کی شکلیں دیکھے جارہی تھی کہ امی آگئیں اور اس گُھمن گھیری سے مجھے نکالا۔

نمرہ جاؤ دیکھو بھائی ہے تو اسے کہو دہی لے آئے ۔امی نے مجھے راہِ فرار دکھائی ۔

ارے تو تم جا کے کہہ دو نا ادھر آ میری بچی! میرے پاس بیٹھ۔ بڑی پھپھو نے بازو سے پکڑ کر مجھے پھر پاس بٹھا لیا۔

ماشاءاللہ بچی بڑی ہو گئی ہے، شادی کے قابل ہو گئی ہے اور اماں میرے جگنو کے ساتھ تو خوب جچے گی۔

ارے چھوڑو!تمہارے جگنو کے تو سیل ہی ختم ہو چکے ہیں، میرے چاند کے ساتھ اس کی جوڑی جمےگی، چاندنی لگے گی چاندنی۔چھوٹی پھپھو تو صدقے واری جارہی تھیں۔

آئے ہائے !چاند یا چاند گرہن، کیوں بچی کی زندگی خراب کرنے پہ تُلی ہو تم دونوں ۔میں جو ہونق بنی کبھی پھپھیوں کو کبھی دادی کو اور کبھی امی کو دیکھ رہی تھی، چھوٹی پھپھو کی بات سن کر زرا ہوش میں آئی ایسا لگا جیسے وہ ہی میری ساتھی ہیں، فٹ ان کے سینے سے جالگی، "یہ تو میرے شیرو کے ساتھ سجے گی"یہ بات سنتے ہی میں کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی ۔

کیا؟ حیران سی پھپھو کی شکل تکنے لگی۔

شیرو! جس کی گھر میں بھی پھونک نکلی ہوتی ہے اور محلے کے بچوں سے بھی بےعزت ہوتا ہے ۔ہاہاہا دونوں پھپھیاں ہنسنے لگیں،چھوٹی پھپھو نے منہ بسورا۔

 میں ،امی اور دادی ماں پریشان تھے. یہ کیا نئی مصیبت تھی ۔میری آنکھوں کے سامنے تو جگنو ،چندو اور شیرو کے چہرے گھوم رہے تھے،جُھجُھری سی آئی تھی۔

"گھر میں تو رشتہ بازار کھلا تھا یا کہنا چاہئے رشتوں کا لنڈہ بازار لگا تھا

جہاں جگنو چندو اور شیرو جیسے رشتے سستے داموں مل رہے تھے۔

***********

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگلی قسط کچھ دن بعد پوسٹ ہوگی برائے کرم صبر کے ساتھ انتظار فرمائیے۔

**************

Comments