"بغاوت"
سدرہ منظور حسین (سیالکوٹ)
اگر بغاوت کے لئے کوئی دوسرا لفظ
تلاش کریں گے- تو وہ بربادی ہوگا-موجودہ دور میں معاشرے کا ہر دوسرا فرد بغاوت پر اتر
آیا ہے- بغاوت کرنے والے کو ہم باغی کہتے ہیں- اور ایک باغی کے لیے ہر چیز تنگ کردی
جاتی ہے-جب کوئی باغی بغاوت کر بیٹھے تو دوسروں کے لئے لمحہ فکریہ ہوتا ہے نہ کہ تنقید;اگرحقیقتا دیکھا
جائے تو بغاوت کرنے والا ظالم نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑاکوئی مظلوم نہیں ایک باغی ظالم
اس وقت نظر آتا ہے جس وقت ہم لمحاتی سکون اور زبان کی پھسلن سے مجبور ہوتے ہیں بغاوت
بے وجہ جنم نہیں لیتی طوفان اچانک ہی نہیں آتے -پہلے اس باغی کے اندر آہستہ آہستہ لاوا
بڑھتا ہے اور جب وہ لاوا بےقابو ہو جاتا ہے تو ایک آتش فشاں کی مانند ہر طرف آگ لگا
دیتا ہے-اور یہ آگ ہر چیز راکھ کر دیتی ہے اور آخر میں کیا بچتا ہے -صرف راکھ -اور
یہ راکھ ہوا کے ہلکے سے جھونکے کی محتاج ہوتی ہے-آخر بغاوت جنم کیوں لیتی ہے اس سوال کا جواب ہم سب کو شرمندہ کر دینے کے لیے
کافی ہے کیونکہ ایک باغی کے ہم سب مجرم ہیں-اگر زندگی حقوق سے باہر نکل جائے تو سرکش
اور باغی ہو جاتی ہے تمام قدریں پامال ہو کر رہ جاتی ہے سارے کا سارا جمال ختم ہو جاتا
ہے زندگی حقوق سے محروم ہو جائے تو ایک بے بس محکوم شے بن کر
رہ جاتی ہے -اگر ایک عورت کی بغاوت کی بات کی جائے -تو عورت کے اندر بغاوت کی آگ کب
جنم لیتی ہےعورت کے اندر بغاوت کی آگ اس وقت جنم لیتی ہے جب گھر کے مرد گھر کی عورتوں
کو پردے کی تلقین کریں اور باہر کی آزاد عورتوں کو پسند کریں تو گھر کی عورت کے اندر
بغاوت کی آگ جنم لیتی ہے-اگر مرد کی سہولت کا نام طوائف ہے تو عورت کے اندر بغاوت کی
آگ کو پیدا کرنے والا مرد دلال ہے-جو اپنے ہی گھر کی عورتوں کو غیر شعوری انداز میں
بیچ رہا ہے-بغاوت خواہ مرد کی ہو یا عورت کی
یا کسی جوان کی ہر شے تہس نہس کر دیتی ہے-اسی لیے حقوق اور اہمیت کا لحاظ کرنے والا
معاشرہ ہی ترقی کی منازل طے کرتا ہے-حقوق کی ادائیگی محبت اور پامالی نفرت کا باعث
ہے-محبت "اطاعت'' پیدا کرتی ہے اور نفرت "بغاوت"
***************
Comments
Post a Comment