Azadi ek nehmat article by Anum Rajpoot

آزادی  ایک  نعمت

انعم راجپوت

آج جب یوم آزادی کے موقع پر  میں  اپنا پہلا کالم آن لان پیش کر رھی ھوں تو میرا دل  رب کریم کے حضور تشکر کے جزبات سے لبریز ھے کہ ھمارے ملک کو آزاد ملک کی حیثیت سے قاٸم ھوۓ  چوھتر سال بیت چکے ھیں 

کیا یہ وقت واقعی ھی اپنے رب کے حضر سجدہ شکر بجا لانے کا نھی کہ اپنوں کی  نہ اہلی اور ریشہ دوانیوں   اور غیر وں کی ان گنت  سازشوں ک باوجود  پاکستان قاٸم ھے اور ان شاء اللہ تا قیامت آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے قاٸم رھے گا

 

آزاد ملک کی حیثیت 1947 سے 2021 تک کا سفر  یقینن آسان اور خوشگوار نھی تھا  نصف صدی کا یہ سفر  حادحات  ،  سانحات ، اورالمیوں بسے بھرا ہڑا ھے قاٸد اعظم رحمت اللہ علیہ   کی وفات اور نوابزادہ  خان لیاقت علیخان  کی شھادت کے سانحات کے بعد سب سے بڑا سانحہ سقوط ڈھاکہ ھے  جب اپنوں کی نا اہلی  خود غرضی  ھوس اقتدار اور غیروں کی گری سازش کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ اس سے چدا ھو کر بنگلہ دیش بنا ۔ یہ عظیم  سانہ ھم نے اپنی آنکھوں سے رو نما ھوتے  نھی  دیکھا  مگر ھم ایسی ھی تکلیف محسوس کرتے ھیں جیسے ھم نے  یہ سانحہ خود رو نما ھوتے دیکھا  کاش پاکستان دو لخت نہ ھوتا !!!

 

اس کے باوجود اللہ تعالی کا شکر ھے اس سانحہ کے پچاس سال گزرنے کے باوجو دھمارا ملک قاٸم ھے  سانحات اورحدثات کا سلسلہ بھی جاری ھے مگران شاء اللہ یہ ملک تا قیامت قاٸم رھے گا۔

 

 

آزادی یقینن ایک بھت بڑی نعمت ھے ایسی نعمت جسکا کوٸ نعم البدل نھی ۔ جس طرح پانی کی قدر صرف پیاسے کو ھی معلوم  ھے بالکل ایسے ھی ٹزادی کی قدر محکوم قومو ں ںسے بڑھ کر کوٸ نھی جان سکتا

آزادی کے لیے طویل جدو جہد  کرنے والی قومیں اپنی تلواریں تیز اور گھوڑے تیار رکھتی ھیں

مگر پاکستانی قوم  کا عمل اس کے برعکس ھے  ھم اپنی تلواری ںتیز اور گھوڑے تیار کیسے رکھیں گے  جو ان چوھتر سالوں میں قیام پاکستان کا مقصد ھی بھول گۓ یا پھر اس مقصد کو  حاصل نھی کر پاۓ

اس کا الزام بے شک آپ حکمرانوں کو دیں مگر آپ اس قوم کو کیا کہیں گے  جو قیام پاکستان کے فورن بعد  قیام پاکستان کا مقصد اوربانی ء  پاکستان کے فرمودات کو بھلا کر  آزادی کی متوالی اور ترقی پسندقوم  کے بجاۓ  خود کو مختلف رنگ و نسل کے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے  والے گروہ   میں ڈھال کر اپنی سمت کھو بیٹھے اور گروہ  بھی ایساجو خود غرض اور مفاد پرست سیاست دانوں کے لیے بار برداری کا کام کرتا ھیے

 

 

اگر میری بات غلط ھے تو بتاٸیں کہ چوھتر سال میں اس قوم نے  مفاد پرست سول و عسکری سیاستدانوں  کے لیے سواۓ بار برداری  کا کام  کرنے کے اور کونسا تعمیری کام کیا ھے ؟؟؟

اس قوم کو یہ بھی گلہ ھے کہ فوج سیاست میں دخیل کیوں  ؟؟

فوج سے یہ سوال  براہ راست کیوں نھی ہوچھا جاتا یا ان جعلی سیاستدانوں سے بازپرس کیوں نھی کی جاتی جو فوج کو سیا ست میں  گھسیٹتے ھیں  جو  براہ راست سوال جواب کرنے کی جراءت نھی رکھتے ھیں  وہ بس بکواس ھی کر سکتے ھں  بکواس کرنے والے ھی بڑی فراخدلی سے ملک کی تباھی میں حصہ بھی ڈالتے ھیں

 

 

جس قوم کی اکثریت کے نزدیک ووٹ ڈالنا صرف بلے پر  شیر پر  ، تیر پر اوران جیسے دوسرے انتخابی نشانات پر ٹھپہ  لگانا ھو اور جو ووٹ ڈال کر سب کچھ حکمرانوں پر ڈال کرخودستو پی کرسو جاۓ

جس قوم کو حکمرانوں سے کام لینا نہ آتا ھو جو حکمرانوں کو خادم کے بجاۓ اپنے سروں کا تاج سمجھتی ھو اس قوم کو آپ اس ملک کی بربادی میں حصہ داری سے کیسے بری الزمہ قرار دے سکتے ھیں ؟؟

 

جس قوم نے   طویل اور صبر آزما  جدو جہد میں  قدم قدم پر بیٹوں بزرگوں کی لاشیں اٹھا کر اور ماٶں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹا کر

آزادی حاصل کی ھو کیا اسےزیب دیتا ھے کہ وہ سب کچھ حکمرانوں پر ڈال کر  اوراندرونی بیرونی دشمنوں سے بے نیاز ھو کر  عضوء معطل کا کردار ادا کرے؟؟؟

 

ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ باباۓ قوم قاٸد اعظم رحمت اللہ علیہ کی رحلت کے بعد بہ حیثیت  قوم ھم اپنے جاگتے رھنے کا ثبوت دیتے حکمرانوں کے ھر اٹھتےقدم پر نظررکھتےان سے باز پرس کرتے انھیں اپنے سروں کا تاج   نہ بناتے  مگر ھم نے ایسا نھی کیا

ھماری اس غفلت کا  نتیجہ ھے کہ حکمران خادم بننے کے بجاۓ ھمارے سروں کے تاج بن کر من مانیاں کرتے رھے۔انھی من مانیوں کا نتیجہ ھے کہ ھم اپنا آدھا ملک گنوابیٹھے اور آدھا ملک گنوا کر بھی اس قوم کو ھوش نھی آیا

 

یہ ملک جسے ھم نے آگ و خون کادریاعبور کر کے حاصل کیا ھے یہ قوم شاٸید اس ملک کو مفت کا مال سمجھ  رھی ھے

اس قوم نے شاٸید یہ  بھی سمجھ لیا ھے کہ  کہ ھماری آزادی کے دشمن { غدار ملت } بھی شاٸید  1947 میں پیٹل اور گاندھی کی جلاٸ ھوٸ فسادات  کی آگ میں جل کر بھسم ھو گۓ ھیں

اگروہ جل کربھسم ھو بھی گۓ ھیں

تو ملت اسلامیہ تو ھر دور میں شکلیں بدل کر نۓ نۓ غدار پیدا کرنے کے لیےزرخیز رھی ھے ضرورت ھے  ھے تو اس بات کی کہ ستو پی کرسوٸ ھو ٸ قوم اپنی آنکھیں کھول کر  آپنے آس پاس پھیلے اپنی آزادی اور ملک کی بقا کے دشمن غداروں کوپہچاننے کی کوشش کرے

 

 

 آزادی حاصل کرنا شاٸیدآسان ھو  مگر آزادی کو برقرار رکھنا بھت مشکل ھے

مشہور گلوکار راحت فتح علی خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا  کہ” ھم  یہ  بات  تو کہتےھیں کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعدحاصل ھوا مگر اس بات کی اہمیت محسوس نھی کرتے جس دن ھم اس بات کی اہمیت محسوس کریںگے اس دن ھمیں پاکستان سے بڑھ کر  عزیز کوٸ بھی نھی ھوگا  ،،

 

وہ لوگ جو کانٹا بھی چبھ جاۓ تو اس ملک کو برا بھلا کہتے ھیں  وہ بھی یادرکھیں پاکستان سے باھر کی  دنیا میں ان کی پہچان انکی عزت و احترام  ان کا مقام اور مرتبہ سب کچھ پاکستان کی وجہ سے  ھے

اور پاکستان کے بغیر پاکستان کے باھر  کی ساری دنیا کی حیثیت  ایک گھنے تاریک جنگل کی سی ھے جیاں نہ تو خوراک ھے  نہ ھی پانی  نہ ھی جنگل میں موجود درندوں سے  بچاٶ کا کوٸ سامان

اس لیے  نو جوان نسل پر لازم ھے کہ جس طرح  آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والے قافلے کے لیے  نو جوان اور باشعور نسل نے ھر اول دستے کا کردار ادا کیا اس طرح کے کردارکی ملک کو اب بھی ضرورت ھے

یاد رکھیں ھمیں زمین حاصل کیے چوھتر سال بیت گۓ ھیں اس زمین پر  مضبوط لقلعہ بنانے کے لیے بنیاد سب نے مل کر اٹھانی  ھےایسا مضبوط قلعہ  کہ طوفان بھی جس سے ٹکرا کر پاش پاش ھو جاۓ

 

آیۓ   اس ملک کی قدرر کریں اس کی بقاا اور ترقی کے لیے  فعال کردار ادا کریں

 

یاد رکھیں اگر ھم نے یہ ملک کھو دیا تو  پھر شاٸید تا قیامت ھم محکوم رھیں کیوں کے اللہ کی زات تو ھمیشیہ باقی رھنے والی ھے مگر  ھمارے پاس اب نہ تو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  رحمت اللہ علیہ ھیں جنھیں کافروں  نے سرکا خطابب دیاتھا نہ ھی قاٸد اعظم محمد علیی جناح رحمت اللہ علیہ ھیں جن کی  ایممانداری  بے باکی  اور سچاٸ کی یہ دنیا آج بھھی متعرف ھے

 

 

اے خدا  اتنی سے عنایت کرنا

 

میرے وطن کو تا ابد سلامت رکھنا

آمین

*************

Comments