موضوع تحریر: ہمارا حق ہمیں دو
لکھاری : نورفاطمہ
٭٭٭٭٭٭
عالم اسلام پہ آج
کون سا کڑا وقت چل رہا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔آج یہ تحریر میں بڑے افسوس
کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔میں اس قدر کمزور ہوں کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لیے کچھ
بھی نہیں کرسکتی ۔آج میری قلم صرف اور
صرف عالم اسلام کے لیے اٹھی ہے۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ روز اول ہی سے دین اسلام کے خلاف سازشوں کا اور غارت
گیری کا بازار گرم کردیا گیا تھا ،نبوی عہد سے لیکر موجودہ دور تک تقریبا ساڑھے چودہ
سو سال کا جو عرصہ مسلمانوں پر بیتا ہے ،وہ حرف بحرف تاریخ کے صفحات میں نقش ہوا ہے
جس میں انکے عروج سے لیکر زوال تک اور کامیابی سے لیکر ناکامی تک کی داستاں روز روشن
کی طرح عیاں ہے
عالم اسلام کو شروع سے ہی نست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی
جاتی ہے۔دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے۔کہیں پہ مسئلہ کشمیر ہے تو کہیں پہ مسئلہ
فلسطین ہے۔
ہمیں ہر معاملے میں نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے
اور آج سے نہیں تب سے ہی چلتا آرہا ہے جب سے عالم اسلام وجود میں آیا۔کچھ لوگ
ہمارے ہی بھیس میں ایسے منافق لوگ موجود ہے جو منہ پر تو ہمارے اندر دوست ہوتے ہیں
لیکن پیٹھ پیچھے دشمن کے ساتھ مل کر ہر وقت تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔
مذہب
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر مشتمل ہے ، اس میں
عقائدبھی ہیں ، عبادات بھی ، معاملات بھی ہیں اور اخلاق و عادات بھی ، اسلام چاہتا
ہے کہ اس کے ماننے والے ایسے عمدہ اخلاق و کردار کے حامل ہوں جو انہیں انسانیت کے
اعلی مقام تک پہنچائے اور ایسے ہر برے اخلاق سے دور رہیں جو انہیں جانوروں کی صف
میں لاکھڑا کردے ۔ اصل
میں زبان سے ایمان و اسلام کا اظہار اور دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و
عناد رکھنا نفاق کہلاتا ہے، یہ نفاق کفر بلکہ کفر سے بھی بڑھ کر ہے اسی لئے قرآن
میں کہا گیا ہے کہ:
"منافق جہنم کےسب
سے نچلے درجے میں ہوں گے اور ان کے لئے آپ کسی کو مددگار نہ پائیں گے"۔۔(سورۃ
النساء 145)
یہاں
تک کہ ہمیں میڈیا کے ذریعے بھی خراب کیا جاتا ہے۔ہمیں دہشت گرد کی صورت میں دکھایا جاتا ہے حالانکہ جس دین
اسلام میں ایک پتھر کو راستے سے ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہے وہ کیسے دہشت گرد بن کر معصوم لوگوں کا خون
بچوڑ سکتا ہے۔
اگر
میں دین اسلام کے بارے میں مزید بات کروں تو کیا ہے دین اسلام؟
دینِ
اسلام سے مراد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر مبنی وہ
نظام حیات ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہو اور وہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کی
ضروریات کو پوری کرتا ہو۔ اس میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور بین الاقوامی سطح
تک کی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم
میں ہے :
"
بے شک دین اللہ کے نزدیک فقط اسلام ہی ہے" ( سورۃ آل عمران 19:3)
تاریخ
انکے لہو کی گواہی آج بھی دے رہی ہے ،موجودہ دور میں شام و یمن سے لیکر کشمیرو
فلسطین کی وادیاں لہولہان ہیں یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو
تہہ تیغ کیا جارہا ہو بلکہ چودہ صدیوں سے یہ آمرانہ اور جارحانہ صورتحال مسلمانوں
کے خلاف اختیار کی جارہی ہے ،اور اپنے مفاد اور انا کی خاطر بہت سی قومیں مسلمانوں
کے آڑے آئیں اور ان پر ظلم اور ستم کے پہاڑ ڈھائے لیکن تاریخ انسانیت میں آج انکے
ذکر کو فراموش کردیا گیا بلکہ نہ صرف بے کسی کی داستاں بھلادی گئی بلکہ برعکس ظلم
اور جبر کا الزام کا طوق انکے گلوں میں ڈال کر مسلمانو ں کو ظالم اور جابر اور
اسلام کو ظلم اور جبر کا مذہب قرار دے دیا گیا ،ذرا تاریخ کے صفحات الٹ کر دیکھتے
ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے عدل اور اعتدال اور انصاف کا ناجائز فائدہ
اٹھاتے ہوئے دشمنان اسلام نے کس قدر اور کس طرح سے اسلام کو اور مسلمانوں کو نیست
ونابود کرنے کی اور مٹانے کی ناکام کوششیں اور سازشیں کی ہیں ،مزید کہ جس دہشت
گردی اور شدت پسندی کو سیکولر اور متمدن حضرات مسلمانوں سے منسوب کرتے ہیں تو معلوم ہونا چاہئے کہ ان الفاظ کا نہ صرف
لفظی بلکہ معنوی اور عملی طور پر اسلامی تاریخ سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں
،اسلام امن و آشتی کا مذہب ہمیشہ سے رہا ہے اور اخوت اور محبت کا پیام لیکر آیا ہے
لیکن موجودہ دور میں جو لا یعنی اور بیہودہ خرافات مسلمانوں کے گلے میں طوق بناکر
ڈالی جاتی ہیں ان میں بیشتر وجوہات ہیں جن میں سے پہلی وجہ یہ کہ اسلامی تاریخ کے
صحیح اور سچے روشن پہلوؤں کو چھپاکر اور خفیہ دستاویز بنا کر رکھا گیا اور قوم کو
ناآشنا کرایا گیا کہ کہیں اسلام کی عظمت و محبت انکے دلو ں میں جا گزیں نہ ہو
،دوسری وجہ یہ کہ اہل اسلام کے پز مردہ دل اور سوئے ہوئے ضمیر بیدار نہ ہوجائیں
اور وہ اپنے اسلاف کی میراث نہ یاد کر پھر سے امت مسلمہ کی روشن کرنوں کو نمایا ں
کریں:
گنوادی ہم نے وہ میراث جو اسلاف سے پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج
فلسطین لہولہان ہے ،شام بے حال ہے ،یمن ،عراق اور کشمیر کی صرت افسردہ ہے اور عالم
اسلام شکایت زدہ ہے ،لیکن یہ داستاں آج کی نہیں ۱۰ سال
یا ۱۰۰
سال پرانی نہیں بلکہ چودہ سوسال پرانی داستاں
ہے جب اہل مکہ نے صحابہ پر ستم کے پہاڑ ڈھائے تھے اور انکو ریگستانوں میں زدکوب کیا
تھا اور جنگوں میں لہولہان کیا تھا اور پھر ہر وقت ہر سانس وہ اسلام اور مسلمانوں کے
خاتمہ کیلئے رہتے تھے ،وہیں اہل یہود کی دشمنی جوچودہ سو سال سے لیکر آج تک اپنا بدلا
لیتی آرہی ہے،اور نہ صرف اندرونی قومیں بلکہ عظیم عالمی طاقتیں بھی اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف آتی ہیں
آج
فلسطین پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں ،ان معصوم
لوگوں کا قتل عام ہورہا ہے۔خونخوار درندوں کی صورت میں مسلمانوں کا قتل عام کرواہا
جارہا ہے۔کتنے ہی مسلمان قتل ہوئے ہیں وہاں ،کتنے ہی بےگھر پھر رہے ہیں وہاں۔دنیا
انہیں قصہ اور کہانی سمجھ کر بھول کر
فراموش کردیتی ہے لیکن یہ قصے باقی تمام قصوں کی ط اسلام
اور مسلمان روز اول سے انسانیت اور امن و سلامتی کا پیام لیکر آئے تھے اور بدستور
آج تک اسی موقف اور اسی دستور پر قائم ہیں اور تا قیامت رہینگے ۔
ہم پر یہ فانی دنیا تنگ پڑ سکتی ہے لیکن آخرت میں ہمارا
جواب سب کو دینا ہوگا۔
ظالم اپنی جی جان لگا دے
ہمیں تباہ و برباد کرنے کی وہ اس اللہ سے بڑا نہیں ہوسکتا ہے۔جب جب ظلم حد
سے بڑھ جاتا ہے اللہ معجزہ کرتا ہے۔جس ظلم کو عروج حاصل ہے اس کو زوال بھی ہے۔اللہ
تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں۔اللہ ہم سب مسلمانوں کو بھی راہ راست پہ
آنے کی توفیق دے اور ہمیں ان گیڈروں سے محفوظ رکھے جو مسلمانوں کے نام پر غداری
کرتے ہیں ۔آمین۔
ہم
امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر
جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم
کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل
کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم
سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ
دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس
ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم
کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم
کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی
نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ
جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ
کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ
زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ
جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو
خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ
خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے
گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی
ماخذ:
- کتاب : Kulliyat-e-Sahir
(Pg. 239)
(ختم شد)
Comments
Post a Comment