بےایمانی
از تحریم جمیل
سورج
اپنے جوبن پر تھا۔ جون کے مہینے میں گرم تپتی دوپہر لہو گرمائے ہوئے تھی۔ کرسی پر بیٹھے
کاپی پر سر جھکائے دانیال بڑے زور و شور سے کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔
استانی
جی آجائیں اس سے پہلے ختم کر اسے! دانیال کے دل میں مسلسل امڈتے خیالات اس کے ہاتھ کی بے قراری سے صاف دکھائی پڑ رہے تھے۔
کانپتے ہوئے حروف کاپی پر چھاپتے ہوئے اس کی نظریں دروازہ کی آڑ میں بھی ساتھ ساتھ
جھانک رہی تھی۔پسینے کی لکیریں اس کی کنپٹی پر عیاں تھی۔
آخر
سکون کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی جب اس کو دیا گیا مضمون اختتام پزیر
ہوا۔
استانی جی مضمون مکمل ہو گیا۔ آپ
ایک نظر دیکھ لیجیے۔اور آج مجھے جلدی جانا تھا گھر میں کچھ کام تھا۔
اثبات
میں سر ہلاتی اس کی استانی قلم ہاتھ میں تھامے اس کے مضمون کی ایک ایک سطر پر نظریں
دوڑا رہی تھی۔ آخر توصیفی نظروں سے اسے دیکھتی اس کی استانی نے صفحے پر شاباش لکھا
اور کاپی اسے تھما دی۔
ٹھیک
ہے جاؤ! استانی نے الوداعی کلمات کہے۔
دل
میں پھوٹتے لڈوؤں پر قابو پاتا، دانیال فوراً کتابوں کو سمیٹے جانے کیلیے اٹھ کھڑا
ہوا۔
اس
کا چہرہ آج بھی اپنے فاتح لوٹنے پر دمک رہا تھا۔
کیسی
بےوقوف عورت ہے۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا اس کو۔ اس کے سامنے صفحہ موجود تھا جہاں سے لکھا
میں نے۔ جانے استاد اندھے کیوں ہوتے ہیں؟ خوشی سے جھومتا دانیال اپنی سمجھداری اور
ذہانت کو دل ہی دل میں داد دے رہا تھا۔
گھر
پہنچ کر اپنی دھاک بٹھانے کو اماں کو بھی اپنا مضمون دکھایا اور انعام کے طور پہ رقم
بھی بٹور لی۔
اگلے
روز بھی اسے ایک اہم سبق کی دہرائی کے بعد لکھنے کیلیے کچھ مشقی سوالات دیے گئے۔
کچھ
دیر یونہی سوالوں پر سرسری سی نگاہ ڈالنے کے بعد جونہی استانی جی کمرے سے باہر نکلی
دانیال نے کتاب سے صفحہ نکالا اور اسے کاپی کے نیچے اڑیس لیا۔ اب دانیال تھا اور اس
کی بے ایمانی جس سے وہ دل ہی دل میں محظوظ ہوا کرتا۔
پچھلے ایک برس سے یہ اس کا روزانہ
کا معمول بن چکا تھا۔ انہی حرکات کے باعث نویں کے امتحانات میں بمشکل پاس ہوا تھا۔
دو مضامین میں تو پاس بھی نا ہو سکا۔ اب کوئی کیسے یقین کرسکتا تھا کہ ہر پرچے میں
پورے نمبر لانے والا دانیال اتنی بری طرح پرچوں میں پٹ گیا تھا۔ باقیوں کی طرح دانیال نے بھی ممتحنوں کو الزام ٹھہرایا۔
بھلا ایسے ممکن ہے اتنا ذہین بچہ اتنے کم نمبر لے۔ ضرور اس کے پرچوں میں کوئی ہیر پھیر
ہوا ہوگا۔ دل کی تسلی کو یہ خیال ہی کافی تھا۔
آج
کل دسویں کی تیاری میں مشغول تھا لیکن مشغلہ جوں کا توں تھا۔
لیکن
آج شاید قسمت اس کی مہربان نہیں تھی۔ دوسرے ہی سوال پر استانی جی سر پہ آن دھمکی۔ ہمیشہ
استانی جی کو بےوقوف سمجھنے والا دانیال آج اپنی حماقت کو رو رہا تھا۔
کاش
تھوڑا بہت ہی یاد کیا ہوتا۔ کچھ تو عزت رہ جاتی!! برے برے منہ بناتا دانیال کبھی پنکھے
کو گھورنے لگتا تو کبھی سامنے کی دیوار اس کی نظروں کا مرکز بن بیٹھتی۔
کافی
دیر یوں ہی وقت گزاری کرتا رہا۔
آخر
اس سکوت کو اسکی استانی جی نے توڑا۔
کیا
بھول گئے؟؟؟ استانی جی کے چہرے پر ایک مرعوب کرنے والی مسکراہٹ تھی۔
جی
بس ایک سوال بھولے بیٹھا ہوں۔ کل کچھ کام تھا ناں تو اس لیے پڑھنے کو زیادہ وقت نہیں
ملا کل۔ دانیال نے رحم طلب نظروں سے استانی جی کو گھورا۔
ارے
تو صفحے سے دیکھ لیتے!!!
استانی
جی نے مسکرا کر کہا اور کمرے سے باہر چل دی۔
دانیال
کا ذہن ماؤف ہوا اور شرم کے مارے اس کاسر جھک گیا تھا۔ یقیناً سب سے بڑا بےوقوف وہ
خود تھا!!!
*************
Comments
Post a Comment