میرے ملک کا المیہ
ازقلم : اریبہ افتخار
میرے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں لڑکے زیادہ ٹیلنٹڈ
اور لڑکیاں زیادہ پڑھی لکھی ہیں ۔۔۔
میں اپنی بات کو دوبارہ دہراتی چلو "لڑکے زیادہ ٹیلنٹڈ
اور لڑکیاں زیادہ پڑھی لکھی ہیں" ۔۔
میری بات میری اب تک کی عمر کا محدود سا تجزیہ اور چھوٹا
سا تجربہ ہے
یہ محض میری سوچ اور نظریہ ہے جس سے اختلاف حق ہے
اور تنقید جائز ہے ۔۔!
مختصر ہمارے ہاں ہر عورت اپنے کسی نہ کسی عمر کے حصے میں
بھی تعلیم جاری رکھے ہیں ۔۔!
بیٹی باپ کے گھر ۔۔۔
بہن بھائی کی سپورٹ سے ۔۔
بیوی شوہر کے گھر ۔۔۔
بہو اپنے سسرال میں ۔۔۔۔
میرے چھوٹے سے گاؤں میں رہنے میں والی ماں بھی اتنا
تو ضرور پڑھی ہے کہ اپنے بچے کی ڈائری پڑھ سکے ۔۔۔
بات آتی ہے لڑکوں کی تو ۔۔۔سوال آتا ہے کمانے کا۔! ۔۔۔پھر
سوالات کچھ یوں ہوتے ۔۔ابھی تک کماتا نہیں ہے؟ ۔۔۔ابھی تک پڑھ ہی رہا ؟ سٹیل ہونے کا
سوچا نہیں ؟ ابھی تک باپ کے پیسو پہ ہی ہے؟ پڑھنا ہی ہے یا کھ اور بھی
سوچنا ؟ چھوڑو پڑھائی باہر کا چکر لگا لو عیش ہی عیش ۔۔!
واہ رے ۔۔!لوگ ان کے سوالات اور پھر مزید ان پر مفید
مشورے ۔۔۔۔۔۔!
غرض ہمارے ملک کی نوجوان لڑکے اپنے اندر بے شمار اور
بے مثال ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پستی میں ہیں ۔۔
مجھے تو لگتا تعلیم نسواں کے ساتھ ساتھ ایک مہم تعلیم مردا
بھی ہونی چاہئے ۔۔!
میری رائے سے اختلاف رکھنے والے یہاں یہ بڑی بڑی مثالیں
ایسی دے گیں فلاں لڑکا یہ پوسٹ ۔۔فلاں سائنٹسٹ ۔۔۔تو فلاں ڈاکٹر ۔۔۔
صابن کا اشتہار دینے والے بھی بیسٹ کوالٹی بتاتے ۔۔ایک فیصد
جراثیم کا مارجن تو۔ ضرور رکھتے ہیں ۔۔۔! تو بلاشبہ ایسے بہت سے لوگ اور مثالیں
موجود ہیں ۔۔لیکن ہمیں بڑی بڑی مثالوں کی نہیں ۔۔فلاں فلاں کی نہیں ۔۔۔! اپنے ارگرد
۔۔اپنے دائرے میں بس عام کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔!
ہمارے نو جوان لڑکے لاکھ صلاحیت ہونے کے باوجود آگے
سٹیل ہونے کے لئے ۔۔آگے کمانے کے لئے ۔۔اس عمر تک پڑھتے رہیں تو کمائے گے کب ؟شادی
کب ہوگی ۔۔۔۔ تب تک بوڑھے ہو جائے گے ۔۔بہنو کو کون دیکھے گا
اور ماں باپ پر کب تک بوجھ بنے گے ۔۔۔اور مستقبل کیا ہوگا
اس طرح کی کئی سوچے ۔۔۔لڑکوں کو مجبور کر دیتی ہیں کے وہ اپنے ٹیلنٹ
کو راستے میں دفن کر کے میچور ہو جا ئے ۔۔۔
عورت جو آج اپنی آزادی کے لئے سڑکوں پر نکلی ہیں در حقیقت
وہ تو آزاد ہیں اور کیا آزادی چایئے کے وہ ذہنی آزاد ہیں ۔۔پڑھی لکھی ہیں ۔۔ان کو نہیں
فکر کہ یہ یا ان کی اولاد کسے کھا رہی ہیں اور کس طرح پڑھ رہی ہیں ۔۔باپ ۔شوہر
۔بھائی ۔وقت پر سکول کالجز یونیورسٹیز کی فیسیس دے رہے ہیں
۔۔رات کو کھانا کھا کے سوتے ہیں ۔اچھا پہننے کو مل رہا ۔۔ہمارے باپ ۔بھائی، شوہر نے
اپنی ذہنی آزادی مار کے عورت کو شعوری آزادی دی ہے ۔۔۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔کہ ہماری عورتیں اپنی مرضی سے اپنا جسم
اٹھا کے سڑکوں پر کھڑے ہو کر اپنے ننگے الفاظوں سے "میرا جسم میری مرضی
جیسا حق مانگ رہی ہیں" ۔۔
*****
Comments
Post a Comment