مان
وہ نازک سا دل رکھنے والی کانچ سی گُڑیا تھی جانے اِس وقت اُس میں اتنی ہمت کیسے آںٸ تھی کہ وہ سب کے مدمقابل آںٸ سراپہٕ سوال تھی یا شاید ہر لڑکی ہی اپنی دفاع و بقا کے لیۓ مکاں سے لامکاں تک کا سفر طے کر لیتی ہے، ہر طوفان، ہر صحرا سے گزر جاتی ہے اور اگر ہارتی ہے تو صرف اپنوں کے ہاتھوں، اُن کے مان کی خاطر۔۔۔۔۔
وہ بھی آج سب سے جواب طلب تھی ”کہ آخر میں ہی کیوں؟“۔۔۔۔ لیکن وقت تو بہت ظالم ہوتا ہے سب کچھ سیکھا دیتا ہے، اُسے بھی وقت نے بتایا تھا کہ آخر وہ تھی تو ایک لڑکی ہی نہ جسے اپنے باپ اور بھاںٸ کا مان رکھنا تھا پھر چاہے اس کے لیۓ اُسے اپنی زندگی کو کتنی ہی فرسودہ روایات کی نظر ہی کیوں نہ کرنا پڑے٠ آج وہ کرچیوں میں بکھر گںٸ تھی، باپ کا مان رکھتے رکھتے اُس کا مان ٹوٹا تھا اور اب وہ شاید بےحس بنی بیٹھی تھی، اپنی ذات کے بکھرتے پرخچوں کی خاموش تماشاںٸ بنی قبیلہ اوس میں ولی ہو کہ جا رہی تھی٠ جانے کب اُس کا نکاح اس حویلی کے چھوٹے سرکار سے ہوا وہ کچھ نہیں جانتی تھی اگر کچھ یاد تھا تو صرف اپنے باپ کا مان، اپنے بھاںٸ کی زندگی، اور اپنی بقیہ سانسیں گن رہی تھی جو شاید اختتام کو تھیں٠ اور وقت، ہاں وقت نے اُسے کانچ سے کرچی بنا کہ خاک میں ملا دیا تھا۔
ختم شد
ازقلم: طاہرہ
Comments
Post a Comment