Larki beti ke roop mein Article by Farwa Aslam

لڑکی بیٹی کے روپ میں

ایک لڑکی اپنی زندگی میں ناجانے کتنے روپ دھارتی ہے سب سے پہلے وہ ایک بیٹی بنتی ہے ۔۔۔

ہمارے معاشرے  میں ایک   ایسی عورت کو نا تو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور نا ہی اس کی معاشرے میں کوئی عزت ہوتی ہے جس کے گھر میں اللہ کی رحمت ایک بیٹی کی صورت میں جنم لیتی ہے ۔۔

 

دیکھا جائے تو ہمارے رب نے خود بیٹی کو ایک عظیم رحمت قرار دیا ہے اور خوش قسمت کہا ہے اس باپ کو جس کے ہاں بیٹی جنم لیتی ہے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ دو یا دو سے زیادہ بیٹیوں کو پال پوس کر ان کی اچھی جگہ شادی کرنے والے باپ کے لیے تو جنت جیسا اجرِ عظیم رکھا ہے ۔۔۔

 

لیکن دورِ جہالت میں تو بیٹی کو رحمت نہیں بلکہ زحمت کی ایک گھٹڑی سمجھا جاتا تھا اور ایک عورت کو شروع سے ہی یہ سکھایا گیا کہ تمہارے ہاں ایک بیٹے کو ہی  جنم لینا چاہیئے ۔۔۔۔

وہ لڑکی اسی خوف میں رہتی کہ کہیں اس کے ہاں بیٹی نا پیدا ہو جائے اور جب اس کے ہاں بیٹی جنم لیتی تو بعض شوہر حضرات اپنی بیوی کو طلاق جیسے بدنما داغ کے ساتھ رخصت کر دیتے اور بعض شوہر اپنی ہی رحمت جیسی بیٹی کو مٹی میں زندہ درگور کر دیتے ، ناجانے ایک باپ کی شفقت اور ایک مرد کی غیرت یہ کیسے گوارہ کرتی تھی کہ وہ اپنی اس بیٹی کو جو عزت کا عظیم تاج بن سکتی تھی ، جو اس کے لیے باعثِ زلت نہیں بلکہ باعثِ عزت بن سکتی تھی لیکن ہمارے معاشرے کے مرد حضرات انہیں مٹی کے حوالے کر آتے تھے وہ بھی زندہ ۔۔۔ استغفرللہ کیسا دور تھا وہ اور کیسے غیرت مند باپ تھے جو اپنے لیے بیٹی نہیں بیٹے کو باعثِ فخر سمجھتے تھے ۔۔۔

 

لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلام آیا اور اس نے بیٹی جیسی عظیم رحمت اور نعمت کی پہچان کروائی اور  سب کو دورِ جہالت سے نکالا ۔۔۔

 

دورِ حاضر بیٹی کی پیدائش پر افسردہ نہیں ہوتا لیکن بہت کم باپ ایسے ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں جو بیٹی کو اپنے بیٹے سے کم نہیں سمجھتے جو بیٹی کو اپنے لیے جنت میں جانے کا سامان سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

 

یہی بیٹی جب بڑی ہو کر گھر کی رونق بنتی ہے ، اپنے ماں باپ کا سر اونچا کرتی ہے  تو سب کو فخر ہوتا ہے لیکن ان سب کے باوجود اگر ایک بیٹی اپنے ماں باپ کی عزت کی پرواہ کیے بغیر وہ تمام کام کرے جن کے بارے میں وہ جانتی ہو کہ نا تو یہ کام جائز ہیں اور نا اس کا معاشرہ اور نا ہی اس کے والدین  ان کاموں کی اجازت دیں گے مگر اس کے باوجود وہ لڑکی وہ ہی کام کرے جو اس کا دل کہے تو  وہ ہی بیٹیاں اپنے باپ کے لیے باعثِ زلت و رسوائی کا باعث بنتی ہیں ۔۔

انتہائی معزرت کے ساتھ کہوں گی کہ آج کل ہمارے معاشرے میں% 70فیصد  ایسی ہی لڑکیاں ہیں جن کو اپنے باپ کہ عزت کی پرواہ  نہیں ۔۔

یاد رہے جس کام کے لیے آپ کے ساتھ آپ کے والدین کی دعائیں ہوگی تو اس کام میں کامیابیاں آپ کا مقدر ہوں گی ۔۔۔۔

 

اور یہ ہی بیٹی جب عمر کے اس مقام تک پہنچتی ہے جو مقام ایک لڑکی کی وہ خواہش ہے جس پے باپ افسردہ ہوتا ہے اور وہ مقام ایک لڑکی کی شادی ہے ۔۔۔

 

بعض معاشروں میں ابھی بھی دورِ جہالت کا یہ رواج رائج ہے کہ بیٹی اپنے باپ کے من پسند لڑکے سے ہی شادی کرے گی  جبکہ ہمارے مذہب اسلام کا کہنا یہ ہے کہ شادی کے وقت لڑکی سے اس کی پسند پوچھی جائے مگر ہمارے ہاں اگر کوئی لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرے تو اِسے معیوب سمجھاتا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جہاں تمہارا باپ چاہے گا وہاں ہی شادی ہو گی ۔۔۔

 

لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی لڑکیوں کو ان کا یہ حق دیتے ہیں کہ اپنی پسند بتاؤ اور ان کی پسند کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔۔۔

 

اور بعض لوگ ایک  باپ کی ہیرے جیسی بیٹی کے ساتھ ساتھ ان سے جہیز جیسی لعنت بھی لینا چاہتے ہیں اور مجبور کر دیتے ہیں ایک باپ کو کہ وہ اپنی خوبصورت ، باکردار اور ایک عزت دار لڑکی کے ساتھ ساتھ جہیز دینے کے لیے در در کی خاک چھانے ۔۔۔

خدارا سنبھل جاؤ اور اس جہیز جیسی لعنت کو اپنے ہی شوق کے مطابق مت خریدو۔۔۔۔

 

المختصر یہ کہ بیٹی ہونا ایک رحمت ہے اسے زحمت مت سمجھنا اور خود کو  اپنے والدین کے لیے باعثِ عزت اور باعثِ فخر سمجھنا اور کوشش کرنا کہ کبھی بھی اپنے والدین کے لیے باعثِ زلت اور رسوائی نا بنو۔۔۔

 

اللہ ہم سب کو اپنے والدین کے عزت بننے کی ہمت دے ۔۔

آمین

ذاتی اظہار :- 

فروا اسلم۔۔۔

                                📝

****************

Comments