خدا سے شکوہ
سدرہ اختر
مزدور کی بیٹی کی شادی تھی ۔
غربت کے سائے میں ساری زندگی بسر کی۔فاقوں کی حالت میں بھی کبھی خدا سے شکوہ نہ کیا ۔۔۔
وقت رخصت ہوگیا۔گھر میں جیسے قیامت کا سماں ہو۔نہ کوئی جہیز نہ کوئی خوشی۔سب کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔شائستہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی حالاتوں کا مقابلہ کرنا جانتی تھی صبر کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی۔رخصتی کے وقت باپ بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے بسی کے عالم میں بولا!!
بیٹی"تونے ساری عمر یہاں فاقے کی حالت میں کاٹی ہے اگر آگے بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو مایوس نہ ہونا کبھی خدا سے شکوہ نہ کرنا اپنے باپ کی عزت کا مان رکھنا!!!
رخصتی ہوگئی۔کچھ عرصہ گزر گیا۔شائستہ سکون کی زندگی بسر کر رہی تھی ۔اچانک سے شائستہ کے شوہر کو فالج پڑگیا گھر میں کہرام مچ گیا۔شائستہ کا شوہر بستر پر تھا گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آگئ لیکن شائستہ کو اپنے باپ کی عزت کا مان رکھنا تھا شائستہ کو اپنے والد کی ایک بات یاد تھی جو اس کے والد نے رخصتی کے وقت کہی تھی کہ خدا سے کبھی شکوہ نہ کرنا۔
شائستہ پڑھی لکھی تھی گھر کو چلانے کے لیے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا ایک اچھی پوسٹ پر نوکری مل گئی آہستہ آہستہ گھر کے حالات بہتر ہوتے گئے شائستہ کے شوہر کی حالت میں بھی بہتری آنے لگی ۔گھر کے حالات بالکل ٹھیک ہو چکے تھے۔شوہر کی حالت اب بلکل ٹھیک ہو چکی تھی وہ بستر سے اٹھ چکا تھا۔اسے بھی ایک اچھی پوسٹ پر نوکری مل گئی۔گھر کے حالات ماشاءاللہ بہت بہتر ہوگئے تھے۔اب شائستہ کو نوکری کرنے کی ضرورت نہیں تھی چونکہ وہ پڑھی لکھی تھی تو اس نے سوچا کہ محلے کے غریب بچوں کو مفت میں تعلیم دی جائے۔اس طرح اللہ بھی مجھ سے خوش ہوجائینگے۔
شائستہ نے ہوم ٹیوشن کھولا اور بچوں کو مفت تعلیم دینے لگی اور خدا کا شکر ادا کیا ۔
حالات ایک جیسے تو کبھی نہیں رہتے کبھی اچھا وقت بھی آتا ہے کبھی برے وقت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ ڈر کر بیٹھ جائیں اور اللہ سے شکوے شکایت شروع کر دیں۔
نہ کر شکوہ خدا سے حالات کا
سدا تو وقت ایک جیسا نہیں رہتا
Comments
Post a Comment