Neki Article by Afreen Rauf

نیکی🌹🌹

ایک دن جب میں گھر آرہی تھی تو مجھے راستے میں ایک چھوٹا بچہ ملا تقریباً وہ سال کا ہوگا زور زور سے رو رہا تھا میں اس کے پاس گئ اور اس کو اٹھا لیا اس کو بہت تیز بخار تھا ۔ آس پاس دیکھا مگر کوئی نہ تھا ایسے لگتا تھا جیسے وہ بچہ کوئی جان بوجھ کر چھوڑ گیا ہو یا اپنی غربت سے تنگ آ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے اپنے ساتھ لے جاتی ہوں اور صبح اس کو پولیس کے پاس لے جاؤں گی۔میں نے بچہ کو  اپنے ساتھ  اپنے گھر لے گئ ۔گھر جا کر میں نے اسے سب سے پہلے دودھ دیا اور پھر دوا دے کر سلا دیا۔پھر اپنے شوہر شایان   کو فون کیا کہ وہ  بچے کیلئےدو سوٹ لے کر آۓ۔ لیکن بچے کا بخار کم نہ ہوا ۔ ہم صبح پولیس سٹیشن گئے اور ساری بات بتائی لیکن پولیس نے ہمیں یہ کہ کر واپس بھیج دیا کہ اس بچے کے ماں باپ اب ملنے سے رہےاگر انہیں اپنے بچے کی فکر ہوتی و ہ  اپنی اولاد کو کیوں اکیلے چھوڑ جاتے آپ اس بچے کو یتیم خانے چھوڑ دیں ۔  ہم واپس گھر چل گۓ۔ میرا دل یہ اجازت نہیں دیتا تھا کہ میں اس بچے کو یتیم خانے چھوڑ آؤں ۔میں نے فیصلہ کیا جب تک اس کے ماں باپ نہیں ملتے وہ میرے پاس رہے گا ۔ اس بچے کا نام میں نے زریان رکھا ۔ میں زریان کو اپنے ساتھ ہوسپیٹل لے جاتی اور واپسی پر روز اس جگہ جاتی جہاں مجھے زریان ملا تھا ۔ایک دن مجھے اس کے ماں باپ کا پتہ چل گیا جب میں وہاں پہنچی تو دیکھا اس کی ماں کا انتقال ہو گیا ۔ لوگوں  نے بتایا کہ اس کی ماں کو کوئی بیماری تھی جس کی وجہ سے اسکی موت ہو گئی۔اور  باپ کا بھی چھ ماں پہلے انتقال ہو گیا تھا ۔ میں زریان سے بہت پیار کرتی تھی ۔اگر وہ مجھے نظر نہ آتا تو میں پریشان ہو جاتی ۔ میں زریان کی ماں نہیں تھی مگر میں نے اس کے ساتھ کبھی  فرق نہیں کیا وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز  تھا اب زریان بولنے لگا تھا اس نے سب سے پہلے میرا نام بولنا شروع کیا ۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کے مجھے بہت اچھا لگتا تھا ۔ مجھے  بھی ایک دن اللّٰہ پاک نے ایک بیٹی دے جس کا نام میں نے زرویش رکھا۔ زریان سارا دن اس کے ساتھ کھلتا رہتا تھا۔ اب زریان چار سال کا ہو گیا تھا میں نے اسکا   داخلہ انگلش گرائمر سکول میں  کروایا ۔ ایک دن شایان مجھ سے کہنے لگے  علیزے تم  زریان کو یتیم خانے چھوڑ آؤ میں نے بھی شایان کی بات کا انکار کر دیا ہر گز نہیں شایان میرا زریان یتیم خانے نہیں جاۓ گا ۔میں نے شایان کو سمجھایا کہ ہمارا اسلام بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم کسی یتیم بچے کی پرورش کریں اللّٰہ خوش ہوتا ہے اس شخص سے جو یتیم کی  بہتر پرورش کرتا یے۔ لیکن شایان نے میری ایک نہ سنی۔ اب تو زریان کے ساتھ سب کا روایہ بھی  ٹھیک نہ تھا ۔ میں نے زریان کو ہوسٹل میں داخل کروا دیا۔ میں ہر ہفتے زریان سے ملنے جاتی تھی ۔جب اس کو چھٹیاں ہوتی تواس کو گھر لے آتی۔ اب ماشآء اللّٰہِ زریان امریکہ ڈاکٹر بننے کیلئے چلا گیا اور زرویش نے بھی کالج جانا شروع کر دیا تھا میں  بہت خوش تھی ۔دس سال بعد زریان  ہارٹ سپیشلسٹ بن کر واپس آ گیا اور زرویش  بھی بطور کیپٹن پاک آرمی میں  شامل ہو گئ تھی ۔میں بہت خوش تھی کہ میرے دونوں بچے کامیاب ہو چکے ہیں ۔ایک دن اچانک شایان کو گردے کا درد ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا ایک گردہ فیل ہو گیا ہے اور دوسرا بھی خراب ہے ان کی جلد از جلد کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنی ہو گئ ۔ ہم بہت پریشان تھے کہ اب کون اپنا گردہ دے گا جو گردہ دینا چاہتا تھا اس کا میچ  نہیں  کرتا تھا ۔زریان نے ڈاکٹرز کو کہا آپ آپریشن کی تیاری کریں میں گردہ دوں گا زریان کا گردہ شایان کے گردے سے میچ کر گیا تھا ۔اور شایان کا آپریشن کامیاب ہو گیا۔علیزے کی آنکھوں میں آنسو تھے  اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اللّٰہ کا شکر کیسے ادا کرے ۔اس نے زریان کو اپنے گلے سے لگا لیا اور کہا میرے بچے میں تمھارا احسان کبھی نہیں بھولوں گئ ۔زریان علیزے کی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے بولا یہ آپ کی نیکی ہے جو کچھ سال پہلے اپنے میرے ساتھ کی تھی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی ۔یہ کوئ احسان نہیں کیا میں نے احسان تو آپ نے کیا تھا آپ اگر مجھے نہ ملتی تو میں شاید زندہ بھی نہ ہوتا  آپ نے مجھے نئ زندگی دی تھی میرے لیے سب سے لڑ  گئ تھیں میں آج جو کچھ ہوں آپ کی وجہ سے ہوں ۔ علیزے شایان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی شایان اللّٰہ پاک اپنے بندوں کو  مصیبت میں اکیلا نہیں چھوڑتا وہ کسی نہ کسی کو وصیلہ ضرور بناتا ہے بے شک اللّٰہ بہت حکمت والاہے۔اور نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔

 

)ازقلم: آفرین رؤف(

Comments