Mehman kabooter Article by Hafiza Khansa Akram

مہمان کبوتر

حافظہ خنساء اکرم

 

کل 6 جنوری کو فاتح مصر سیدنا ابو عبداللہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا یوم وفات تھا۔تو ضروری محسوس ہوا کہ عالم اسلام کے اس درخشندہ ستارے کی زندگی کی کچھ جھلکیوں پر بات کی جاتی۔

آپ رصی اللہ عنہ کی زندگی کے مطالعہ کے بعد سب سے زیادہ اس بات کا شدت سے احساس اجاگر ہوتا ہے کہ سبحان اللہ! وہ کیا للَٰہیت بردباری ، رواداری ،اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے لیے جانثاری جیسے اوصاف سے مزین جذبہ تھا کہ جس نے مصر جیسی سطوت کو فتح کرنے کے بعد داھیۃ العرب و ارطبون العرب جیسے القابات کے حامل ہونے کے باوجود بھی اطاعت امیر المومنین رضی اللہ عنہ میں کوئ کسر نہ باقی رہنے دی ۔ 

 رحم دلی کا عنصر کردار میں اتنا نمایاں تھا کہ اسلامی مصر کے دارالحکومت ( فسطاط)کا نام و قیام حقیقتاً ایک کبوتر کی یاد ہے۔  

ہوا کچھ یوں تھا کہ اسلامی لشکر کے پڑاؤ کرنے کے لیے ایک جگہ دریا کے کنارے خیمہ بستی قائم کی گئی تھی۔ جب کوچ کی باری آئی تو ایک خیمہ میں کبوتر یا فاختہ کے انڈے موجود پانے پر اس خیمے کو وہاں پر موجود رہنے دیا گیا۔ اور یوں مسلمانوں کی طرف سے اس پرندے کی آئندہ نسل کی حفاظت و مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا۔ پھر مصر کی فتح کے بعد یہی علاقہ جہاں ایک خیمہ تو پہلے ہی موجود تھا اور بہت سے خیموں کی پناہ گاہ بنا۔ اور تاریخ میں فسطاط یعنی " خیموں کا شہر " نام سے مشہور ہوا۔...

اور یہ تاریخ وقت کے ہر حکمران کو معلوم ہونی چاہیے کہ جو مصر پہلے تھا بعد میں بھی موجود وہی تھا مگر جب اس پر فرعونیت راج کرنے لگی تب کیا حالات تھے اور جب اسلام کی آمد ہوئ تب دنیا کے سامنے اسلامی حکومت کے زیر انتظام مصر کا کیا نقشہ ابھرا تھا؟اور یہ مسلمانوں کی طرف سے صرف پرندے کی مہمان نوازی و حفاظت کا خوب صورت اظہار نہیں تھا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے خاموش پیغام تھا کہ حکومت صرف انسانی جسموں نہیں پر بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام مخلوق کبریا کے دلوں پر حکمرانی کرنا اور ان کے تمام حقوق کی حفاظت کرنا ہی حاکم کا اصل کام ہے اور یہی تبلیغ اسلام ہے۔  

 

تو جہاں تاریخ کے اوراق ہمارے اسلاف کے کارناموں کو سراہتے ہوئے ملتے ہیں وہاں پر ہی وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان جیسی( عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) منکسر المزاج، مخلص اور ایماندار شخصیت بھی سبائیت کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی اور نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ بعد از حیات بھی کردار کشی و الزامات کی زد میں رہی۔۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی اکثریت مسلمان اس پروپیگنڈہ کا شکار ہےہیں جو ہمارے اسلام کے خلاف یہودیوں نے چودہ سو سال پہلے شروع کر دیا تھا۔

اور یہ بھول گئے کہ جس کو اللہ اپنی رضا کا سرٹیفیکیٹ جاری کردے اس کا نام اتنا ہی ابھرتا ہے جتنی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔

ویسے بھی ہر مسلمان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اور اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرنے کے لیے ہمارے لیے ہر محاذ پر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا ضروری ہے۔

***

Comments