میں خاص کیوں نہیں
بقلم زرقون چیمہ
مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پہ سیاہ اترتی ہوئی رات دھند
کی لپیٹ میں تھی دھند کی نمی ہر شے پہ اپنی تہہ کی پرت جمارہی تھی ہڈیاں جما دینے والی اس ٹھنڈ میں
سڑک کنارے اک آدھ دکان کھلی نظر آرہی تھی اور جلتے ہوئے بلب کی زرد روشنی اندھیرا
کم کرنے کی کوشش میں دھند کی نمی سے سر پٹکتی ناکام ہو رہی تھی
ایسے میں اس سردی سے بچنے کے لیے ہر شخص بستر میں دبک
جانے کی خواہش رکھتا تھا لیکن اس ٹھنڈ سے بےنیاز تین خواجہ سرا مشرق کی جانب بڑھ
رہے تھے تیز میک اپ سے ڈھکے انکے چہروں پہ اک الوہی سی چمک تھی
"آج
تو گرو ماں خوش ہوجائے گی"ان میں سے اک جو سبز رنگ کے چولی اور گرارے میں
ملبوس تھا اپنے مخصوص انداز میں تالی بجاتے ہوئے بولا تھا
"ہاں
نا !یہ لاڈو تو دن بدن گرو ماں کی چہیتی ہوتی جارہی ہے اب حسد ہونے لگا ہے تجھ سے
لاڈو "
دوسرے خواجہ سرا نے ساتھ چلتی لاڈو کی جانب دیکھتے ہوئے
کہا جو اداس سی دور شان سے کھڑے اس پہاڑ کو دیکھ رہی تھی
"دونوں
خواجہ سراوں نے اک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر لاڈو کے دائیں بائیں ہوتے ہوئے اسے
درمیان میں کر چکے تھے
"اے
لاڈو!!!کیا ہوا تجھے تو یونہی ہنستے ہنستے اداس کیوں ہو گئی؟؟؟؟شام سے دیکھ رہا
ہوں جب سے تو نے بچے کی ماں اور نانا کو دیکھا ہے تب سے ہی اداس اور گم صم ہو گئی
ہے تو"ان میں سے اک نے تاسف سے پوچھا
"سوچ
رہی ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دعاوں سے مقدر بنتے ہیں ہماری بات اللہ قریب
ہوکر سنتا ہے اس لیے ہر خوشی کے موقع پہ وہ دعاوں کے لیے ہمیں بلاتے اور فخر سے ہم
سے دعائیں لیتے ہیں تو پھر وہ ہم سے رشتہ رکھتے ہوئے شرمندگی کیوں محسوس کرتے ہیں
؟؟؟؟؟؟"لآڈو نے بجھی ہوئی آواز میں کہا تھا
"کیونکہ
ہم ان جیسے مکمل انسان نہیں ہوتے اس لیے ہماری دنیا الگ ہے پگلی اس لیے ہم ان سے
تعلق نہیں رکھ سکتے "دور شان سے کھڑے پہاڑ سے نگاہ ہٹا کر بائیں جانب چلتے
لاجو کی طرف دیکھتے ہوئے لاڈو ہنس دی تھی۔
"کیوں؟؟؟؟؟کیا
ہم انسان نہیں ؟؟؟؟یا ہم جذبات نہیں رکھتے؟؟؟؟؟؟یا سینے میں دل نہیں
ڈھرکتا،؟؟؟؟؟؟سب کچھ تو ہے ہمارے پاس دل' جذبات اور جان تو الگ کیسے ہوئے ہم"
"پر
یہ بات یہ موئی دنیا نہیں سمجھتی نا۔یہ دنیا تو دور ہمارے اپنے ماں باپ 'بہن بھائی
تک نہیں سمجھتے۔ ہم انکے لیے بس اک شرمندگی ہیں۔ ہمیں نابالغ عمر میں ہی ماں کی
نرم آغوش سے اٹھا کر گرو ماں کے سخت ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں"اب کی بار سبز
لباس میں ملبوس گوری نے کہا
"اور
نہیں تو کیا۔پتہ ہے جب میں سرخی لگاتا تھا تو ماں پہلے مارتی تھی اور بعد میں اتنی
محبت سے کھانا کھلاتی تھی لیکن کب تک وہ مجھے اپنے آنچل میں چھپاتی بالآخر بےدرد
دنیا اور باپ کے فیصلے نے ماں کی مامتا کا خون کر دیا تھا۔ "لاڈو کی آنکھیں
نمکین پانی سے بھر گئیں تھیں لاجو اور گوری اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ
ہوئے تھے
دل درد کی شدت سے پھٹا جا رہا تھا دور شان سے کھڑا پہاڑ
جھکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا دھند کی گرتی نمی بھی رنجیدہ ہونے لگی تھی
"لاڈو
!!!کیا بات ہے پہلے تو کبھی ایسے نہیں ہوا کہ تو نے آنکھ سے آنسو نکلنے دیا ہو
تو'تو انکو چھپا لینے میں ماہر ہے ۔کسی سے خود کو کم نہیں سمجھتی پھر آج اس بےبسی
کی کیا وجہ ہے؟؟؟؟تو کیوں کمزور پڑ رہی ہے؟؟؟؟"لاجو نے اسکے آنسو صاف کرتے
ہوئے کہا
لاڈو کا چہرہ رونے کے سبب لال ہو گیا تھا
گرو ماں کے شاگردوں میں بہت کم لوگ حسن والے تھے اور
لاڈو ان میں سے ہی اک تھی تیکھے نقوش' کٹاو دار لب اور موٹی موٹی بولتی ہوئی آنکھیں
اسکے حسن کو مزید نوخیز بناتی تھی
"جانتے
ہو لاجو!!!آج ہم جس گھر میں گئے تھے وہ کس کا گھر ہے؟؟؟؟؟؟(گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھتے
ہوئے بولی اور دھیمی آواز میں بولی)وہ گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گھر میری بہن کا تھا ۔میری(اپنی
جانب اشارہ کر رہی تھی آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہہ رہے تھے)اور وہ بادامی چادر
کندھے پہ ڈالے ہوئے۔۔۔ وہ شخص میرا باپ تھا جو بار بار اپنی بیٹی اور نواسے کو چوم
رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت خاص اور قیمتی ہو۔۔۔مجھے تو کبھی ایسے پیار نہیں کیا میں
خاص کیوں نہیں "گوری نے روتے ہوئے اسکو اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا ۔
"میں
خاص کیوں نہیں؟؟؟؟؟"لاڈو نے نگاہ اٹھا کر لاجو اور گوری کی جانب دیکھتے ہوئے
کہا اسکی آنکھوں میں آنسوؤں کی دھند تھی وہی کرب تھا جس میں وہ دونوں مبتلا تھے اک
ایسی دھند جو اپنے اندر بہت سی محرومیاں اور بےبسی لیے ہوئے تھی بے اختیار وہ تینوں
اک دوسرے سے لپیٹ گے تھے کیونکہ اب یہ ہی منزل تھی یہ ہی رشتہ تھا ان تینوں کا غم
سانجھا تھا۔
ختم شد
Comments
Post a Comment