دوسروں سے محتلف سوچتاہوں بس
اسی نقطے نے مجھے کافر بنادیا:
تحریر:ابراہیم ساغر
آپ تاریخ اُٹھا کے دیکھ لے جس شحص نے بھی لوگوں سے محتلف
سوچا ان کو اس سوچ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی
لوگ انہیں کافر اور غدار کہتے بعض لوگوں نے creative
اور معاشرے میں نئے سوچ پیدا کرنے والے لوگوں کو ایمان کی دھمکی سے
ڈرایا حاص کر مولویوں نے حلانکہ کسی کے کافر کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا ہر شحص کی
اپنی سوچ ہوتی ہیں
ہمارے ہاں نناوے فیصد لوگ وہی کہتے،لکھتے اور بولتے ہیں
جولوگوں کو پسند ہو صرف ایک فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے کو ایک خاص نظر سے دیکھتے
ہیں اور معاشرتی کمزوریوں کا جیسا محسوس کرتے ہیں ویسا ہی بولنے اور لکھنے کی کوشش
کرتے ہیں اگر چہ وہ تمام رائے عامہ کے مقابل ہی کیوں نا ہو۔ ہم معاشرتی لحاظ سے چونکہ
اختلافی سوچ کو برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہوتے اس لیے ایسی سوچ سوچنے والوں کو معتوب
قرار دے دیتے ہیں۔
مثلا آپ سر سید کے علمی کام پر نظر ڈالیے۔جب انھوں نے کہا
کہ مسلمان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک انگریزی زبان میں دورِ حاضر کے علوم پر
دسترس حاصل نہیں کرتے۔ تو ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
سر سید کو
اپنی اس سوچ اور عمل کی بے حد بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ مسلمان حلقوں کی اکثریت ان
کی بھرپور مخالفت کرتی تھی۔انکی بے عزتی کی جاتی تھی۔ علی گڑھ کالج کو ’’شیطان کاجال‘‘
قرار دیا جاتا تھا۔ حتی کہ بعض حضرات نے تو کافر تک بھی کہا ۔
مگر وقت نے
ثابت کیا کہ مسلمانوں کی ترقی کا دور اس وقت سے شروع ہوا، جب انگریزی تعلیم نے انھیں
وہ فکری طاقت دی کہ ہندوستان میں اعلیٰ نوکریوں اور دیگر میدانوں میں آگے نکلنے لگے۔
پاکستان کی
تحریک پر نظر ڈالیے۔قائداعظم کے ساتھ اگر علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا جان و دل سے کھڑے
نہ ہوتے، تو شائد ہماری غلامی کا سفر مزید طویل ہوجاتا۔ وقت نے ثابت کیا کہ سرسید درست
بات کر رہے تھے۔
آپ کسی بھی غیر متعصب شخص سے دریافت کر لیجیے۔ ہندوستان
میں مسلمانوں کی ترقی کی بنیاد سرسید کے علاوہ کسی نے نہیں ڈالی۔ مسلمان خواتین کو
جدید تعلیم دیکرمیدان عمل میں لانے کاسہرا بھی علی گڑھ یونیورسٹی کو جاتا ہے۔ اس سے
پہلے مسلمان خواتین کی فکری حالت کیا تھی۔اس پر صرف افسوس کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان تمام
احسانات کے بدلے ہم نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا یہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔
اسی طرح علامہ اقبال نے جب شکواہ لکھا تو سب مولویوں نے
مل کر اقبال کو کافر قرار دے دیا
اور جب جواب شکواہ لکھا تو سب مولویوں نے اُس سے درست کہا
یہی حال لاوڈ سپیکر ایجاد ہونے پر بھی ہوا سب مولویوں نے
مل کر فتوے جاری کر دیئے کی لاوڈ سپیکر حرام ہے
اور بعد میں ان
مولویوں نے سپیکر کو حلال کر کے اپنے فتوے واپس لے لیں۔
************
Comments
Post a Comment