Hazrat Umar bin Abdul Aziz by Abdullah Saien

حضرت عمر بن عبد العزیز
اسلام کے عظیم سپوت، ہمت و جرات کے پیکر،انصاف کے بادشاہ، اسلام کے محسن جن کو دنیا عمر بن عبد العزیز  کے نام سے جانتی ہے،ان کا لقب عمر ثانی ہے ،
حضرت عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے،شاہی خاندان میں پرورش پائی،بڑے ناز نخرے میں پلے بڑھے،مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کی،جب علم سے فارغ ہوئے تو بادشاہ کے حکم سے ایک صوبہ کے گورنر بنا دیے گئے۔
آپ کی طبیعت شاہانہ مزاج کی تھی،عمدہ کپڑا پہننا اور عمدہ سے عمدہ خوشبو لگانا آپ کی عادت تھی،جس راستے سے ایک بار گزر جاتے تو کافی دیر تک اس راستے سے خوشبو مہکتی رہتی اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو معلوم ہو جاتا کہ یہاں سے حضرت عمر گزرے ہیں،بہت عمدہ کھانا پسند کرتے تھے،بے حد نفیس طبیعت کے مالک تھے،جب ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے تو ان کا سامان کئی اونٹوں پر لاد کر پہلے سے وہاں پہنچا دیا جاتا۔
بادشاہوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی،ملک میں چہار سو بےانصافی، دور جاہلیت کی رسومات کی کثرت، بادشاہوں کا جگنو پر قبضہ کرنا، غریب و بے بس اور لاچار عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنا معمولی بات بن گئی تھی،آخرت کو بھول کر دنیا کی عیش و عشرت میں منہمک دنیا کے فانی خزانوں کو سمیٹنے میں لگے ہوئے تھے،قرون اولیٰ کی یادیں تقریبا ختم ہو چکی تھی, عرب کا زمانہ جاہلیت عروج پر تھا سلطنت اسلامی ختم ہونے یا کمزور ہونے کے قریب تھی۔
پھر کیا ہوا؟
 کہ قدرت خداوندی نے ایک ایسی شخصیت کو مسند خلافت پر براجمان کیا جس نے نے اسلامی سلطنت کی گرتی ہوئی دیواروں کو  سہارا دیا  اور  قرون اولی کی یادیں تازہ کر دیں،عدل و انصاف اپنے حال پر آنے لگا،چہار سو ظلمت چھٹنے لگی،غریب پر ظلم ختم ہونے لگا،خلیفہ نے اپنی مثال آپ پیش کرتے ہوئے  ذاتی مال   بھی بیت المال کی نظر کر دیا  اور  فاقہ کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔
حکومت میں اصلاحات کیں،ظالم و جابر عمال کو عہدوں سے معزول کیا اس کی جگہ ایک نیک صفات اور عادل شخص کو عہدہ دیا، قرون اولی سے موصوف مشاوراتی نظام قائم کیا، لاعلمیت ختم کر کے علم کو عام کر دیا، دنیا کے گوشے گوشے میں علم کی خوشبو پہنچا دی، غیر مسلم مسلمان ہونے لگے جگہ جگہ حلقہ درس حدیث و فقہ قائم ہونے لگے، ہر غریب کی آواز ایوان بالا میں پہنچنے لگی، غریب امیر ہونے لگے بے دین دیندار ہو رہے تھے، غلام آزاد ہو رہے تھے، ظالم و جابر راستے سے ہٹ چکے تھے، اب یہ سلطنت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت تھی جس سے پوری دنیا خوف کھاتی تھی جن سے لڑنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور اس کے حکمران کی ہیبت کفار حکمرانوں کے دلوں میں گھر کر چکی تھی۔
لیکن اس حکمران کی اپنی حالت یہ ہے کہ کھانے کے لئے کھانا نہیں، پہننے کے لئے کپڑا نہیں، عید کے لیے بچوں کا لباس نہیں، لیکن اس کی سلطنت کا ہر فرد امیر ہے زکوۃ لینے والا کوئی نہیں لوگ زکوۃ لیے گلی گلی پھر رہے ہیں لیکن کوئی مستحق نہیں ملتا۔
اتنے اوصاف و کمالات والا حکمران جس سے پوری دنیا خواتین تھی اپنے اقرباء اس کی مقبولیت وشہرت کی تاب نہ لاسکے اور سازش کے تحت زہر ملا دیا جس سے دنیا کا یہ عظیم سپوت 101 ہجر کو  دار فانی سے دارالبقاء کی طرف چل بسا صرف دو سال پانچ ماہ حکومت کی۔
اننا للہ و اننا الیہ راجعون.

Comments